نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا
by شاد عظیم آبادی

نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا
اک عمر سے تھی تکلیف جسے کل شب کو وہ قیدی چھوٹ گیا

تھی تیری تمنا کاہش جاں اس درد سے میں دیوانہ تھا
چھالا تھا دل اپنے سینے میں اے وا اسفا وہ پھوٹ گیا

سب اپنی ہی اپنی دھن میں پھنسے تیرا تو نہ نکلا کام کوئی
جو آیا ترے دروازے پر وہ اپنا ہی ماتھا کوٹ گیا

تابوت پہ میرے آئے جو مٹی میں ملایا یوں کہہ کر
پھیلا دیے دست و پا اپنے اتنے ہی میں بس جی چھوٹ گیا

آیا تھا یہی دل میں میرے رندوں ہی پہ کلی بھی پھینکوں
ساقی کا اشارہ پاتے ہی میں زہر ستم کو گھوٹ گیا

ہو ہندوئے خال لب تیرا یا ترک نگہہ ہو اے قاتل
دہلی تھا ہمارا دل شاید جو آیا وہ اس کو لوٹ گیا

نازک تھا بہت کچھ دل میرا اے شادؔ تحمل ہو نہ سکا
اک ٹھیس لگی تھی یوں ہی سی کیا جلد یہ شیشہ ٹوٹ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse