نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں (I)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں
کب آسماں زمین و زمیں آسماں نہیں

آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا
کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں

اس بزم میں نہیں کوئی آگاہ درد کب
واں خندہ زیر لب ادھر اشک نہاں نہیں

افسردہ دل نہ ہو در رحمت نہیں ہے بند
کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں نہیں

لب بند ہوں تو روزن سینہ کو کیا کروں
تھمتا تو مجھ سے نالۂ آتش عناں نہیں

ملنا ترا یہ غیر سے ہو بہر مصلحت
ہم کو تو سادگی سے تری یہ گماں نہیں

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

بے وقت آئے دیر میں کیا شورشیں کریں
ہم پیر و پیر میکدہ بھی نوجواں نہیں

کٹتی کسی طرح سے نہیں یہ شب فراق
شاید کہ گردش آج تجھے آسماں نہیں

آزردہؔ ہونٹ تک نہ ہلے اس کے روبرو
مانا کہ آپ سا کوئی جادو بیاں نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse