نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا
by شاہ مبارک آبرو

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا
پنجرے میں بولتا ہے گرم آج اگن ہمارا

پیری کمان کی جوں مانع نہیں اکڑ کوں
ہے ضعف بیچ دونا اب بانکپن ہمارا

چلتا ہے جیو جس پر جاتے ہیں اس کے پیچھے
سودے میں عشق کے ہے اب یہ چلن ہمارا

ملنے کی حکمتیں سب آتی ہیں ہم کو اک اک
گو بوعلی ہو لونڈا کھاتا ہے فن ہمارا

مجلس میں عاشقوں کی اور ہی بہار ہو جا
آوے جبھی رنگیلا گل پیرہن ہمارا

اس وقت جان پیارے ہم پاوتے ہیں جی سا
لگتا ہے جب بدن سے تیرے بدن ہمارا

یہ مسکراؤنا ہے تو کس طرح جیوں گا
تم کو تو یہ ہنسی ہے پر ہے مرن ہمارا

عزت ہے جوہری کی جو قیمتی ہو گوہر
ہے آبروؔ ہمن کوں جگ میں سخن ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse