ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
by مرزا محمد رفیع سودا

ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
دل یار سے پھٹے تو کسی سے رفو نہ ہو

اس دل کو دے کے لوں دو جہاں یہ کبھو نہ ہو
سودا تو ہووے تب یہ کہ جب اس میں تو نہ ہو

آئینۂ وجود عدم میں اگر ترا
وہ درمیاں نہ ہو تو کہیں ہم کو رو نہ ہو

جھگڑا تو حسن و عشق کا چکتا ہے پل کے بیچ
گر محکمے میں قاضی کے تو روبرو نہ ہو

قطرہ کی کھل گئی ہے گرہ ورنہ اے نسیم
شور دماغ مرغ چمن گل کی بو نہ ہو

گزرے سو گزرے اہل زمیں اوپر اے فلک
آئندہ یاں تلک تو کوئی خوب رو نہ ہو

دل لے کے تجھ سے برق کے شعلے کو دیجیے
پر ہے یہ ڈر کہ اس کی بھی ایسی ہی خو نہ ہو

گل کی نہ تخم مرغ چمن کر سکے تلاش
ہم خام فطرتوں سے تری جستجو نہ ہو

سوداؔ بدل کے قافیہ تو اس غزل کو کہہ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse