ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
by نسیم دہلوی

ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
دن تو تھا اب رات کو بھی آ کے سمجھانے لگے

حضرت واعظ کہیں دولت سرا کو جائیے
آتے ہی سامان محشر آپ دکھلانے لگے

آ گئے جب یاد کچھ اس ربط باہم کے مزے
دل بھر آیا دیدۂ تر اشک برسانے لگے

پھر سبو انڈلے بھرے شیشے ہوئے لبریز جام
لغزش پا اپنی اپنی مست دکھلانے لگے

باغباں ہشیار ہو مشتاق رخصت ہے بہار
رنگ بدلا گلستاں کا پھول مرجھانے لگے

جلوہ ہائے حسن چمکے اٹھ گئے منہ سے نقاب
طرۂ گیسو کے باہم سانپ لہرانے لگے

ہاتھ اٹھا اے چارہ گر درمان بے تاثیر سے
جائے اشک آنکھوں سے اب لخت جگر آنے لگے

خوب روئے دیکھ کر ہم زیور دیوانگی
جب احبا پاؤں میں زنجیر پہنانے لگے

بھٹیاں روشن ہوئیں چمکی دوکان مے فروش
رخصت توبہ ہوئی زہاد گھبرانے لگے

فصل گل آئی بڑھے جوش جنوں کے ولولے
دی صدا زنجیر نے پھر پاؤں کھجلانے لگے

مانع مطلب ہوئی وہ شرم باہم اے نسیمؔ
وہ رکے اپنی طرف ہم آپ شرمانے لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse