ناصحا آیا نصیحت ہے سنانے کے لیے
ناصحا آیا نصیحت ہے سنانے کے لیے
یا کہ آیا ہے یہاں تیرے ستانے کے لیے
آ کے لاشہ پہ مرے وہ آب دیدہ گر ہوا
یہ بہانا آنسوؤں کا ہے بہانے کے لیے
تم جو کہتے ہو کہ کیا وہ ایسی جلدی مر گیا
کیا ہیں برسوں چاہئیں اک جان جانے کے لیے
کیا ہوا گر موت آئی ہے وہ آنے کے لیے
کیا ہوا گر جاں گئی ہے وہ بھی جانے کے لیے
ہے فقط پرہیز یہ کہہ دو مریض عشق سے
پینے کو خون جگر ہے غم ہے کھانے کے لیے
منہ میں زاہد کے بھی ہیں دو دانت ہاتھی کی طرح
اک دکھانے کے لیے ہے ایک کھانے کے لیے
کون ہے زیر فلک پھرتا ہے جو اپنی خوشی
پھر رہے ہیں سب جہاں میں آب و دانے کے لیے
پیٹ کے غم نے کیا ہے سب جہاں کو منتشر
باپ سے بیٹا جدا ہے آب و دانے کے لیے
جلوہ بخشا وہ مجھے تیرے رخ پر نور نے
طور پر موسیٰ گیا تھا جس کے پانے کے لیے
دیکھ کر آیا ہے ناصح کیا جہنم کا عذاب
ہیں فقط یہ جاہلوں کا دل ڈرانے کے لیے
رہ گیا اپنا کلیجہ تھام جلاد فک
جب اٹھایا اس نے خنجر خوں بہانے کے لیے
آب تو دیتے ہو خنجر کو مگر یہ سوچ لو
خون میرا چاہئے اس کو بجھانے کے لیے
وعدہ عاشق سے نہ ہو سچا تو جھوٹا ہی سہی
چاہئے کچھ تو تسلی دل بڑھانے کے لیے
منہ نہ دیکھا عیش کا تدبیر ہم نے لاکھ کی
غم گھٹانے کے لیے فرحت بڑھانے کے لیے
جب کہا میں نے کہ کیوں باتیں بناتے ہو بہت
ہنس کے بولے باتیں ہوتی ہیں بنانے کے لیے
اے دل ناداں نہیں دولت دبانے کے لیے
خرچ کر اس کو وہ ہے کھانے کھلانے کے لیے
جب کہا میرا فقط ہے ایک بوسہ کا سوال
بولے دولت حسن کی کیا ہے لٹانے کے لیے
ہے بلایا مشرقیؔ کو تم نے جو پیش رقیب
کیا نکالا تھا یہ نسخہ دل دکھانے کے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |