ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو  (1934) 
by ابراہیم عاجز

ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو
کب کرے گا شاد میری خاطر ناشاد کو

کس طرح کا سم قاتل ہے یہ شربت عشق کا
جان شیریں زہر آخر ہو گئی فرہاد کو

رحم جب کرتا نہیں نالوں سے پھر کیا فائدہ
درد مندی بلبل نالاں سے کیا صیاد کو

کیسے وہ خوش فہم ہیں پتھر پڑے اس فہم پر
جو جہان آباد سمجھے اس خراب آباد کو

اک تعلق سے ہزاروں رنج ہوتے ہیں نصیب
فکر کرتے کس نے دیکھا ہے کسی آزاد کو

جانتے ہیں جزو ہے ایمان کا حب وطن
بے طرح بھولے وطن ہیں کیا ہوا استاد کو

نالہ و زاری میں اے عاجزؔ تو کیوں مصروف ہے
کون سنتا ہے ارے ناداں تری فریاد کو

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse