ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
by جلیل مانکپوری

ناز کرتا ہے جو تو حسن میں یکتا ہو کر
میں بھی نازاں ہوں ترا عاشق شیدا ہو کر

میں نہ سمجھا تھا کہ اشکوں سے اٹھے گا طوفاں
چند قطروں نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر

چشم بیمار جو پہلے تھی وہی اب بھی ہے
کچھ بنائے نہ بنی تم سے مسیحا ہو کر

کس کے رخسار دم سیر چمن یاد آئے
پھول آنکھوں میں کھٹکنے لگے کانٹا ہو کر

درد تھا دل میں تو جینے کا مزہ ملتا تھا
اب تو بیمار سے بدتر ہوں میں اچھا ہو کر

دام سے چھوٹ کے بھی میری اسیری نہ گئی
زلف صیاد گلے پڑ گئی پھندا ہو کر

چھپ کے رہنا ہے جو سب سے تو یہ مشکل کیا ہے
تم مرے دل میں رہو دل کی تمنا ہو کر

کیا ستم ہے شب وعدہ وہ حنا ملتے ہیں
رنگ لائے نہ کہیں خون تمنا ہو کر

دہن یار کی تعریف جو کی میں نے جلیلؔ
اڑ گیا طائر مضموں مرا عنقا ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse