ناز و ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناز و ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لیے
by حیدر علی آتش

ناز و ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لیے
یہ جامہ قطع ہے ترے اندام کے لیے

وحشت میں کعبے کو جو گیا کوئے یار سے
لتے جنوں نے جامۂ احرام کے لیے

عاشق ہوں ہر طرح سے گنہ گار ہوں ترا
حاجت قصور کی نہیں الزام کے لیے

کیا کیا جپے گی کیسا رٹے گی زباں اسے
تسبیح ہم نے لی ہے ترے نام کے لیے

طفلی کے گریہ کا یہ کھلا حال وقت مرگ
آغاز ہی میں روتے تھے انجام کے لیے

اچھا نہیں مقابلہ اس چشم شوخ سے
اک دن شکست فاش ہے بادام کے لیے

وہ نونہال آئے الٰہی مراد پر
حاصل ہو پختگی ثمر خام کے لیے

ہر چند اپنا نامۂ عصیاں سیاہ ہو
ہوگا سفید صبح ہے ہر شام کے لیے

نامرد اور مرد میں اتنا ہی فرق ہے
وہ نان کے لیے مرے یہ نام کے لیے

مثل کمند اپنی رسائی ہوئی اگر
اے قصر یار بوسے لب بام کے لیے

کیا چشم مست یار سے تشبیہ دیجئے
کیفیت نگاہ نہیں جام کے لیے

رکھوا کے زلفیں یار نے لاکھوں ہی مرغ دل
پیدا کئے ہیں کشمکش دام کے لیے

دل میں سوائے یار جگہ ہو نہ غیر کی
خلوت سرائے خاص نہیں عام کے لیے

جاتا ہے بہر غسل جو اے خوش دماغ تو
جلتا ہے عود گرمیٔ حمام کے لیے

آتشؔ جو چاہے پائے توکل کے محکمے
جو صبح کو ملے نہ رہے شام کے لیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse