نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ
by منیرؔ شکوہ آبادی

نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ
مخمل رنگ گل ہے گویا پیٹ

نظر آتا ہے عکس کرتی کا
آئنے سے بھی ہے مصفا پیٹ

درد سر کھو دیا صبیحوں کا
صندل صبح کا ہے تختہ پیٹ

یہ صباحت یہ حسن یہ جلوہ
ورق سیم مہ ہے سارا پیٹ

ناف ہے ساغر مراد اے گل
بادۂ حسن کا ہے مینا پیٹ

ڈر یہی ہے نہ چھلکے ساغر عمر
ہے مئے ناب کا قرابا پیٹ

جام خالی نہیں ہے چہرہ سے کم
آج ساقی نے مفت کاٹا پیٹ

تم نے دم دے کے جب ملایا پھول
خوب مثل حباب پھولا پیٹ

سیکڑوں نگلے آدمی اس نے
نہ بھرا اژدر زمیں کا پیٹ

سرخ کرتی سے ہو گیا معلوم
آفتاب سحر ہے ان کا پیٹ

دم نہیں سینہ میں سماتا ہے
یاد آتا ہے ان کا گورا پیٹ

دیکھنے والے کیوں نہ ہوں مجنوں
رنگ میں ہے عذار لیلیٰ پیٹ

چھاتیاں ہیں ترنج زر گویا
لوح سیمیں ہے اس پری کا پیٹ

لال نیفا دکھا کے گردوں کو
ہالۂ مہ کا رنگ لایا پیٹ

شاد ہوتے ہیں دیکھ کر عاشق
سحر عید کا ہے نقشہ پیٹ

موئے مژگاں ہیں بال سیلی کے
آنکھوں کے سامنے ہے تیرا پیٹ

بات مستی کی ہضم ہو نہ سکی
شیشۂ بادہ کا ہے ہلکا پیٹ

جان و دل سے منیرؔ صدقہ ہے
نہیں دیکھا ہے اب تک ایسا پیٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse