نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں
Appearance
نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں
ان حسینوں سے دل کو ساز نہیں
غیر کا بھید کیوں نہ کھل جائے
آپ کے دل کا تو وہ راز نہیں
اک تری ذات کے سوا زاہد
کوئی دنیا میں پاکباز نہیں
اس میں پاتا ہوں کچھ تری خوبی
مجھ کو بے وجہ دل پہ ناز نہیں
جتنے ہیں اہل درد ہیں ہمدرد
دل وہ پتھر ہے جو گداز نہیں
کہہ رہی ہے یہ سادگی کی ادا
نیک و بد میں کچھ امتیاز نہیں
جبہ سائی بتوں کے در کی حفیظؔ
زاہد خشک کی نماز نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |