Jump to content

نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں

From Wikisource
نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں
by حفیظ جونپوری
299646نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیںحفیظ جونپوری

نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں
ان حسینوں سے دل کو ساز نہیں

غیر کا بھید کیوں نہ کھل جائے
آپ کے دل کا تو وہ راز نہیں

اک تری ذات کے سوا زاہد
کوئی دنیا میں پاکباز نہیں

اس میں پاتا ہوں کچھ تری خوبی
مجھ کو بے وجہ دل پہ ناز نہیں

جتنے ہیں اہل درد ہیں ہمدرد
دل وہ پتھر ہے جو گداز نہیں

کہہ رہی ہے یہ سادگی کی ادا
نیک و بد میں کچھ امتیاز نہیں

جبہ سائی بتوں کے در کی حفیظؔ
زاہد خشک کی نماز نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.