نازنینان جہاں شعبدہ گر پکے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نازنینان جہاں شعبدہ گر پکے ہیں
by عزیز حیدرآبادی

نازنینان جہاں شعبدہ گر پکے ہیں
دیکھنے کو تو یہ بھولے ہیں مگر پکے ہیں

ہم لٹا دیں گے محبت میں متاع ہستی
ہم دکھا دیں گے ارادے کے اگر پکے ہیں

پختہ کاری کی خبر دیتی ہے خامی ان کی
کان کے کچے ہیں مطلب کے مگر پکے ہیں

یہ تو فرمائیے قسموں کی ضرورت کیا تھی
آپ اقرار کے وعدے کے اگر پکے ہیں

خوف طوفان حوادث کا نہیں مجھ کو عزیزؔ
جن کی بنیاد ہے مضبوط وہ گھر پکے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.