نارسائی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نارسائی
by میراجی

رات اندھیری بن ہے سونا کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہوگی رات

برکھا رت ہے اور جوانی لہروں کا طوفان
پیتم ہے نادان مرا دل رسموں سے انجان
کوئی نہیں جو بات سجھائے کیسے ہوں سامان
بھگون مجھ کو راہ دکھا دے مجھ کو دے دے گیان

چپو ٹوٹے ناؤ پرانی دور ہے کھیون ہار
بیری ہیں ندی کی موجیں اور پیتم اس پار
سن لے سن کے دکھ میں پکارے اک پریمی بچارا
کیسے جاؤں کیسے پہنچوں کیسے جتاؤں پیار

کیسے اپنے دل سے مٹاؤں برہ اگن کا روگ
کیسے سجھاؤں پریم پہیلی کیسے کروں سنجوگ
بات کی گھڑیاں بیت نہ جایں دور ہے اس کا دیس
دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse