ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا
by سخی لکھنوی

ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا
کیا بھائے اسے سخن کسی کا

گل کی مجھے کیوں کلی دکھائی
یاد آ گیا پھر دہن کسی کا

ہر سنگ کی کوہ پر صدا ہے
یاں دفن ہے کوہ کن کسی کا

کرتے ہو پسند وحشت دل
لے جاؤ گے کیا ہرن کسی کا

بھولی ہے صبا قبائے گل پر
دیکھا نہیں پیرہن کسی کا

عاشق ہی کے جب نہ کام آیا
کس کام کا بانکپن کسی کا

آ جائے کسی کی موت مجھ کو
مل جائے مجھے کفن کسی کا

سینہ سے ہمارا دل نہ لے جاؤ
چھڑواتے ہو کیوں وطن کسی کا

گاتے ہیں سخیؔ ہی کی غزل وہ
بھاتا ہی نہیں سخن کسی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse