ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
by شبلی نعمانی

ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو

درد فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں بھی ترے دشوار ہے آنا ہم کو

جوش وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا شکر لباس
بس کفایت ہے جنوں دامن صحرا ہم کو

رہبری کی دہن یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیوان یہ دکھایا ہم کو

دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے
چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہم کو

واہ کاہیدگیٔ جسم بھی کیا کام آئی
بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہم کو

قالب جسم میں جاں آ گئی گویا شبلیؔ
معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse