نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
by نسیم دہلوی

نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
خدا جانے اب کے مجھے کیا ہوا ہے

تعلق ان آنکھوں سے پیدا ہوا ہے
بہت دن کا یہ خواب دیکھا ہوا ہے

نہ عالم میں تجھ سا نہ مجھ سا جہاں میں
نہ ایسا ہوا ہے نہ ویسا ہوا ہے

نہ لے قیس آگے مرے نام وحشت
ابھی کل کی ہے بات پیدا ہوا ہے

پھر اٹھتا ہے دود محبت جگر سے
وہی حال اگلا سا میرا ہوا ہے

یہ گھر بار ہے دیدۂ اشک زا سے
مرا دامن آغوش دریا ہوا ہے

وہ وادیٔ ایمن پہ موقوف کیا ہے
ہمارا ہر اک دشت دیکھا ہوا ہے

ذرا دم تو لینے دے اے چشم جادو
بڑی مدتوں میں دل اچھا ہوا ہے

کہا میں نے تنہائی ہے بات سن لو
کہا ہنس کے تم کو تو سودا ہوا ہے

ترقی پہ ہے نوجوانی تمہاری
ابھی کیا ہوا ہے ابھی کیا ہوا ہے

حجاب نظر سے کھلے بھید دل کے
عبث ہم سے ظاہر میں پردا ہوا ہے

ہماری تمہاری تو ہیں دل کی باتیں
نہ مانو اگر اس کا چرچا ہوا ہے

نہ گھبراؤ جانا اجی ہم بھی سمجھے
کہیں اور بھی آج وعدہ ہوا ہے

نہ مانیں گے ہم آج تو لے چلیں گے
بہت روز امروز فردا ہوا ہے

اگر تم بھی دیکھو تو رونے لگو گے
مری جان یہ حال اپنا ہوا ہے

نسیمؔ اب کہاں قدردان سخن ہیں
کہے شعر یہ بھی جو چرچا ہوا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse