نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
by اکبر الہ آبادی

نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

تمہاری پالسی کا حال کچھ کھلتا نہیں صاحب
ہماری پالسی تو صاف ہے ایماں فروشی کی

چھپانے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عیب اپنے
نصیحت کیا کروں میں قوم کو اب عیب پوشی کی

پہننے کو تو کپڑے ہی نہ تھے کیا بزم میں جاتے
خوشی گھر بیٹھے کر لی ہم نے جشن تاج پوشی کی

شکست رنگ مذہب کا اثر دیکھیں نئے مرشد
مسلمانوں میں کثرت ہو رہی ہے بادہ نوشی کی

رعایا کو مناسب ہے کہ باہم دوستی رکھیں
حماقت حاکموں سے ہے توقع گرم جوشی کی

ہمارے قافیے تو ہو گئے سب ختم اے اکبرؔ
لقب اپنا جو دے دیں مہربانی ہے یہ جوشی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse