مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی
by عابد علی عابد

مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی
دل کو غم ہو کہ سکوں رات گزر جائے گی

دیکھنا یہ ہے کہ انداز سحر کیا ہوں گے
یوں تو ارباب جنوں رات گزر جائے گی

نہ رکا ہے نہ رکے قافلۂ لیل و نہار
رات کم ہو کہ فزوں رات گزر جائے گی

میں ترا محرم اسرار ہوں اے صبح بہار
جا کے پھولوں سے کہوں رات گزر جائے گی

مژدۂ صبح مبارک تمہیں اے دیدہ ورو
میں جیوں یا نہ جیوں رات گزر جائے گی

رات بھر میں نے سجائے سر مژگاں تارے
مجھ کو تھا وہم کہ یوں رات گزر جائے گی

صبح اٹھ کر تجھے رہ رو سے لپٹنا ہوگا
رہبر تیرہ دروں رات گزر جائے گی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse