مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے
by ریاض خیرآبادی

مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے
میرے ساقی تو رہے آباد مے خانہ رہے

حشر بھی تو ہو چکا رخ سے نہیں مٹتی نقاب
حد بھی آخر کچھ ہے کب تک کوئی دیوانہ رہے

کچھ نہیں ہم دل جلوں کی بے قراری کچھ نہیں
تیری محفل وہ ہے جس میں شمع پروانہ رہے

گورے ہاتھوں میں بنے چوڑی خط ساغر کا عکس
تیرے دست ناز میں نازک سا پیمانہ رہے

کم سے کم اتنا اثر ہو جو سنے آ جائے نیند
بیکسوں کی موت کا ہونٹھوں پر افسانہ رہے

رات جو جا بیٹھتے ہیں روز ہم مجنوں کے پاس
پہلے ان بن رہ چکی ہے اب تو یارانہ رہے

حشر ہو تم شرم کے پتلے نہ بننا حشر میں
چال اٹھلائی ہوئی انداز مستانہ رہے

تاب اس کی لا نہیں سکتے کبھی نازک دماغ
بار سر ہے دور سر سے تاج شاہانہ رہے

ان کے کہنے سے کبھی یوں کہہ لیے دو چار شعر
رات دن فکر سخن میں کوئی دیوانہ رہے

ان بتوں کے چلتے ہم نے دل کو پتھر کر لیا
بت رہے کوئی نہ یا رب کوئی بت خانہ رہے

طور پر آ میں نہ میرے سامنے یوں ہی سہی
ہاں ذرا طرز تکلم بے حجابانہ رہے

زندگی کا لطف ہے اڑتی رہے ہر دم ریاضؔ
ہم ہوں شیشے کی پری ہو گھر پری خانہ رہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse