میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث
by عبدالرحمان احسان دہلوی

میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث
ہوئے بے دل ہی اپنے آپ کیوں بیزار کیا باعث

عنایت کی نہیں اگلی سے اب آثار کیا باعث
کئے ہیں بند تم نے رخنۂ دیوار کیا باعث

کہا میں نے مرے گھر بھی کبھو آؤ گے یہ بولے
میں کیوں آؤں مجھے کیا واسطہ کیا کار کیا باعث

نڈر لا تقنطو پڑھ کر گناہوں سے تھا میں اپنے
یہ واعظ کیوں ڈراتے ہیں مجھے غفار کیا باعث

تمہاری خاطر واطر میں اے گل رو یہ کیا آیا سو
مجھے کیوں دیکھ کر ہنستے ہو تم ہر بار کیا باعث

فقط اک دید کو نادیدہ دل اور دیدہ ہے اپنا
تو اے بے دید دکھلاتا نہیں دیدار کیا باعث

پس مردن مری بالیں پہ رو کر یہ لگے کہنے
تو کیوں چپکا پڑا ہے عاشق بیمار کیا باعث

سخی سے سوم بہتر ہے جواب صاف جو دیوے
کبھی انکار کیا موجب کبھی اقرار کیا باعث

بگاڑ اس آئنہ رو سے نہیں گر آپ کا احساںؔ
بنی حیرت سے کیوں تم صورت دیوار کیا باعث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse