میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا
by امداد علی بحر

میں گلا تم سے کروں اے یار کس کس بات کا
یہ کہانی دن کی ہو جائے نہ قصہ رات کا

ترک کی مجھ سے ملاقات آپ نے اچھا کیا
غم مٹا ہر وقت کا جھگڑا گیا دن رات کا

بے تمیزوں سے طبیعت آشنا ہوتی نہیں
چاہنے والا ہوں میں محبوب خوش اور رات کا

میں تو کچھ کہتا ہوں تم سے تم سمجھتے ہو کچھ اور
جبکہ باتوں میں کلام آیا مزا کیا بات کا

تیرے آنے کی دعا مانگا کبھی جاگا کیے
رات بھر عالم رہا اے بت خدائی رات کا

واہ کیا نام خدا سج دھج ہے کیا انداز ہے
آدمی دیکھا نہیں اس قد کا اور اس کات کا

سامنے یوں آئے بوتل جیسے آتی ہے گھٹا
جام یوں جھلکے کہ میں دیکھوں سماں برسات کا

عشق وہ غارت گر ایماں ہے یہ چاہے اگر
واعظوں کو کلمہ پڑھوائے منات و لات کا

ایسے جھوٹے ہو اگر سچ بھی کبھی ہو بولتے
اعتبار آتا نہیں صاحب تمہاری بات کا

یار تم کو دل نہیں دینے کا بے‌ بوسہ لیے
تم جو اپنی گونگے ہو میں بھی ہوں اپنی گھات کا

اہل دنیا خوش ہوں یا نا خوش ہوں کچھ پروا نہیں
آسرا رکھتا ہے یہ بندہ خدا کی ذات کا

جب تمہاری کان کی بجلی چمک کر رہ گئی
میری آنکھوں نے سماں دکھلا دیا برسات کا

قامت جاناں ہے میل منزل اول مجھے
کاکل شب گوں ہے جادہ وادیٔ آفات کا

تاش کا موباف چوٹی میں مقرر چاہئے
چاندنی سے اور ہی ہوتا ہے جوبن رات کا

بحرؔ اپنی اپنی قسمت ہے بہ شکل مہر و ماہ
زر اسے بخشا اسے کاسہ دیا خیرات کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse