Jump to content

میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں

From Wikisource
میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
by نوح ناروی
331237میں کسی شوخ کی گلی میں نہیںنوح ناروی

میں کسی شوخ کی گلی میں نہیں
زندگی میری زندگی میں نہیں

ہم وفا کی امید کیا رکھیں
کس میں ہوگی جو آپ ہی میں نہیں

کوئی کیسا ہے کوئی کیسا ہے
آدمیت ہر آدمی میں نہیں

تذکرہ ہی وفا کا سنتا ہوں
یہ کسی میں ہے یا کسی میں نہیں

اس کا ملنا ہے اپنے کھونے پر
فی الحقیقت خدا خودی میں نہیں

کس سے پوچھوں کہ رات کیا گزری
اہل بزم اپنے ہوش ہی میں نہیں

وہ گھٹا آسمان پر اٹھی
عذر اب مجھ کو مے کشی میں نہیں

گفتگو ان کی دوستی میں ہے
شک ہمیں ان کی دشمنی میں نہیں

ہے خودی اور بے خودی کچھ اور
بے خودی کا مزہ خودی میں نہیں

کوئی چلمن اٹھائے بیٹھا ہے
کوئی اپنے حواس ہی میں نہیں

غور سے دیکھیے تو سب کچھ ہے
کون سی بات آدمی میں نہیں

یہ بھی ہو وہ بھی ہو تو لطف آئے
کچھ نہیں لاگ اگر لگی میں نہیں

کون سا وصف کون سی خوبی
حضرت نوح نارویؔ میں نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.