میں وہ ہوں جس کا زمانے نے سبق یاد کیا
میں وہ ہوں جس کا زمانے نے سبق یاد کیا
غم نے شاگرد کیا پھر مجھے استاد کیا
حسن جاں سوز نے وحدت میں مجھے یاد کیا
میں یہ سمجھا کہ مجھے عشق نے برباد کیا
نہیں معلوم وہ میں ہوں کہ کوئی اور اسیر
سن رہا ہوں کہ گرفتار کو آزاد کیا
جس جگہ کھائی تھی ٹھوکر وہیں تربت تھی مری
بھولنے والے نے مشکل سے مجھے یاد کیا
میری آہوں کی ہواؤں میں نہ آ جانا تم
یہ وہی ہیں کہ جنہوں نے مجھے برباد کیا
خانۂ قبر عجب چیز ہے لیکن میں نے
اتنے ٹکڑے کو بھی اک عمر میں آباد کیا
یاس و امید کے مابین ہوئی ختم حیات
ایک نے شاد کیا ایک نے ناشاد کیا
تجھ کو سب دیتے ہیں آواز وہ اپنے ہوں کہ غیر
اس طرف میں نے موذن نے ادھر یاد کیا
میں تھا اک خاک کی چٹکی تو اڑا جاتا ہوں
خاک کا وہ بھی ہے ذرہ جسے صیاد کیا
کس سے لوں داد وفا کس کو دکھاؤں یہ جفا
وہ تو پردے میں ہے جس نے مجھے ایجاد کیا
عشق میں اپنے ہی ہاتھوں سے ہوا دو ٹکڑے
دل ناکام نے کار سر فرہاد کیا
ناتوانی میں گرے تھے جو لہو کے قطرے
میں تو بھولا ہوا تھا دل نے بہت یاد کیا
اشک آنکھوں سے گرے خون رگوں میں جو نہ تھا
میں نے آخر ادب نشتر فصاد کیا
ذرے ذرے سے مری خاک یہ دیتی ہے صدا
رہے آباد وہ جس نے مجھے برباد کیا
ایک سناٹا سا عالم میں تھا لیکن میں نے
فتح باب اثر نالہ و فریاد کیا
جتنے شکوے ہیں تجھی سے ہیں کہ اس عالم میں
مجھ کو بلبل کیا صیاد کو صیاد کیا
راستہ چلنے کے قابل نہ رہا اے ہمدم
میں نے منزل پہ نیا مرحلہ ایجاد کیا
میں تو چیونٹی کے کچلنے سے حذر رکھتا تھا
پھر مجھے کس نے تہہ زانوئے جلاد کیا
اتنا زندہ رہے ہم جس سے کھلیں معنیٔ موت
صبح ایجاد میں قصد عدم آباد کیا
بو نکلنے لگی غنچوں سے تو پھر ڈر کس کا
یہ خبر سچ ہے تو صیاد نے آزاد کیا
قبل از وقت پھنسا دام میں اور پھنستے ہی
جو تمنا یہاں لائی تھی اسے یاد کیا
عالم حسن ہے وہ نقش معانی ثاقبؔ
جو مری طبع خدا داد نے ایجاد کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |