میں نے کہا کہ دعوی‌ٔ الفت مگر غلط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نے کہا کہ دعوی‌ٔ الفت مگر غلط
by سید یوسف علی خاں ناظم

میں نے کہا کہ دعوی‌ٔ الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط

تاثیر آہ و زاریٔ شب ہائے تار جھوٹ
آوازۂ قبول دعائے سحر غلط

سوز جگر سے ہونٹ پہ تبخالہ‌ افترا
شور فغاں سے جنبش دیوار و در غلط

ہاں سینے سے نمائش داغ دروں دروغ
ہاں آنکھ سے تراوش خون جگر غلط

آ جائے کوئی دم میں تو کیا کچھ نہ کیجئے
عشق مجاز و چشم حقیقت نگر غلط

بوس و کنار کے لئے یہ سب فریب ہیں
اظہار پاک‌ بازی و ذوق نظر غلط

لو صاحب آفتاب کہاں اور ہم کہاں
احمق بنیں ہم اس کو نہ سمجھیں اگر غلط

سینے میں اپنے جانتے ہو تم کہ دل نہیں
ہم کو سمجھتے ہو کہ ہے ان کی کمر غلط

کہنا ادا کو تیغ خوشامد کی بات ہے
سینے کو اپنی اس کی سمجھنا سپر غلط

مٹی میں کیا دھری تھی کہ چپکے سے سونپ دی
جان عزیز پیشکش نامہ بر غلط

پوچھو تو کوئی مر کے بھی کرتا ہے کچھ کلام
کہتے ہو جان دی ہے سر رہ گزر غلط

ہم پوچھتے پھریں کہ جنازہ کدھر گیا
مرنے کی اپنی روز اڑانی خبر غلط

آیت نہیں حدیث نہیں جس کو مانئے
ہے نظم و نثر اہل سخن سربسر غلط

یہ کچھ سنا جواب میں ناظمؔ ستم کیا
کیوں یہ کہا کہ دعویٔ الفت مگر غلط

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse