میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا
by وحشت کلکتوی

میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا
ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا

ہائے وہ دل جو ہدف تھا ناوک بیداد کا
درد سہتا ہے وہی اب غفلت صیاد کا

نرگس مستانہ میں کیفیت جام شراب
قامت رعنا پہ عالم مصرعۂ استاد کا

مانع فریاد ہے کچھ طبع کی افسردگی
کچھ سکوت آموز ہے پاس ادب صیاد کا

اس قدر دل کش رہا تیرا اگر انداز جور
زخم دل منہ چوم لے گا خنجر بیداد کا

مجلس ماتم بنی آنے سے ان کے بزم عیش
پڑ گیا پھولوں میں میرے غل مبارک باد کا

تو نہ کر ترک ستم ظالم ستم ہو جائے گا
جاں سے جائے گا خوگر لذت بیداد کا

درد ناکام ہجوم آرزو کا ہے مآل
تلخئ حسرت نتیجہ شوق الفت زاد کا

حسرت افزا ہے بہت میرے دل ویراں کا جال
کون ہے فرماں روا اس ملک غیر آباد کا

لطف ہی آتا رہا ہے سعی باطل میں مجھے
ہے یہاں افسوس کس کو محنت برباد کا

کھینچ کر لے چل مجھے شوق اسیری سوئے دام
کام ایسا کر کہ جس سے جی بڑھے صیاد کا

کس کو شکوہ ہجر کا اور کس کو حسرت وصل کی
لطف پروردہ ہے میرا دل کسی کی یاد کا

یہ ادائے دلربایانہ یہ انداز حیا
کس طرح پھر کام کرتی ہے نظر جلاد کا

وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار
کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse