میں نے ان سے جو کہا دھیان مرا کچھ بھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نے ان سے جو کہا دھیان مرا کچھ بھی نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

میں نے ان سے جو کہا دھیان مرا کچھ بھی نہیں
ہائے کس ناز سے ہنس ہنس کے کہا کچھ بھی نہیں

عرض کی کچھ دل عاشق کی خبر ہے تو کہا
ہاں نہیں کچھ نہیں بس کہہ تو دیا کچھ بھی نہیں

تو نہ آیا شب وعدہ تو گیا کیا تیرا
مر مٹے ہم ترے نزدیک ہوا کچھ بھی نہیں

کیا ہے انجام محبت کوئی پوچھے ہم سے
جیتے جی خاک میں ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں

کس کی مہر اور وفا اب ہے جفا سے بھی گریز
کیوں نہ جل کر کہیں الفت میں مزا کچھ بھی نہیں

آنکھوں ہی آنکھوں میں دل لے گیا سینہ سے نکال
ہاتھ سے ہم نے دیا اس نے لیا کچھ بھی نہیں

مرے اللہ یہ پتھر کہ بتوں کا دل ہے
رحم رسوائی کا ڈر خوف خدا کچھ بھی نہیں

کون سا درد ہے جس کا نہیں دنیا میں علاج
لیکن اس درد محبت کی دوا کچھ بھی نہیں

دیکھا کیفیؔ کو تو بے ساختہ یوں بول اٹھے
اب تو بیمار محبت میں رہا کچھ بھی نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse