میں نہ منت کش انگور ہوا خوب ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نہ منت کش انگور ہوا خوب ہوا
by نسیم میسوری

میں نہ منت کش انگور ہوا خوب ہوا
چشم مخمور سے مخمور ہوا خوب ہوا

شعلۂ آہ مرا نور ہوا خوب ہوا
ان کا گیسو شب دیجور ہوا خوب ہوا

نکہت زلف سے مسرور ہوا خوب ہوا
سانپ کے زہر سے مخمور ہوا خوب ہوا

سر جو قدموں پہ رکھا ہاتھ سے سرکا نہ دیا
عجز پر میرے وہ مغرور ہوا خوب ہوا

آئے پریوں کے پرے وصف کمر کھلوانے
مثل عنقا کے میں مشہور ہوا خوب ہوا

اس جہاں کے نظر آتے ہیں تماشے مجھ کو
دوربیں دیدۂ ناسور ہوا خوب ہوا

اب انا الحق کے کہے پر نہیں مارے جاتے
اس زمانے میں جو منصور ہوا خوب ہوا

پھنس گیا ہے کسی گیسو میں دل خانہ خراب
دشمن جانی سے میں دور ہوا خوب ہوا

میرے درماں ہیں بدل مردم بادام فروش
چشم بیمار سے رنجور ہوا خوب ہوا

اشک سے چشم کے ہم زخم جگر دھوتے ہیں
خون دل بادۂ انگور ہوا خوب ہوا

ہم نے دنیا ہی میں جنت کا مزا لوٹ لیا
مہرباں ہم پہ جو وہ حور ہوا خوب ہوا

بے حجابانہ گلے لگتے ہیں دور اور چلے
چشم بد دور وہ مخمور ہوا خوب ہوا

زانوئے زہرہ جبیناں پہ دھرا رہتا ہے
سر مرا کاسۂ طنبور ہوا خوب ہوا

وعدہ شب کا تھا مجھے دن کو وہ دیکھا تو کہا
نام زنگی اجی کافور ہوا خوب ہوا

کیا ہی خوش گو ہے نسیمؔ اہل سخن کہتے ہیں
باغ ہند آپ سے میسور ہوا خوب ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse