میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
by ثاقب لکھنوی

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
خار ہیں پیراہن گل میں سنبھل کر راہ چل

دور ہے ملک عدم اور تجھ میں دم باقی نہیں
ہو سکے تو بس یوں ہی کروٹ بدل کر راہ چل

طالب منزل ہے پھر عزلت نشینی کس لیے
رہروؤں کو دیکھ لے گھر سے نکل کر راہ چل

کوئے جاناں میں زمانہ ہو گیا روتے ہوئے
تا کجا دل کا تأسف ہاتھ مل کر راہ چل

یوں رسائی تا سحر ممکن نہیں اے دل مگر
شمع کی صورت شب غم میں پگھل کر راہ چل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse