میں نقش ما و من ہوتا کہ نقش ماسوا ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں نقش ما و من ہوتا کہ نقش ماسوا ہوتا
by بیخود موہانی

میں نقش ما و من ہوتا کہ نقش ماسوا ہوتا
جو پہلے سے خبر ہوتی کہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا

مری ہستی کا نقطہ گر نہ نقش ماسوا ہوتا
ازل کی ابتدا ہوتا ابد کی انتہا ہوتا

سمجھ لے راہ الفت میں کچھ ایسی ہی پڑی ورنہ
نہ دل مجھ سے جدا ہوتا نہ میں دل سے جدا ہوتا

بنی جو کچھ بنی ہم پر مگر پھر بھی یہ حسرت ہے
کہ پہلو دل میں ہوتا اور دل میں مدعا ہوتا

یہ عالم تھا کبھی دل کا مرے جوش تخیل سے
جو نقشہ آنکھ میں پھرتا وہی میرا خدا ہوتا

فضا کے ذرے ذرے میں تموج ہے تلاطم ہے
اثر درد آفریں دل کی صدا میں اور کیا ہوتا

خیال ہستیٔ موہوم آفت ہے قیامت ہے
کہ ہونے پر برا ٹھہرا نہ ہوتا تو برا ہوتا

نہ اگلی سی خلش ہے اب نہ وہ پچھلی سی کاوش ہے
الوہی قلب میں خار تمنا رہ گیا ہوتا

یہ منظر مجمع محشر کا اور محروم ہے بیخودؔ
خدایا پردۂ جوش تمنا اٹھ گیا ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse