میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا
by ریاض خیرآبادی

میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا
مرا منہ چومنے شاید مرا مست شباب آیا

ترے نازک سے چہرے پر جہاں رنگ عتاب آیا
صباحت رخ کی بول اٹھی کہ رخ زیر نقاب آیا

قیامت اٹھتی رہتی ہے یہاں یہ ہے گلی اس کی
کہاں پامال ہونے تو دل خانہ خراب آیا

سر تربت بھی گھوڑے پر ہوا کے وہ سوار آئے
قیامت ہم عناں آئی نہ دشمن ہم رکاب آیا

ہوئے ہنگامہ ہائے حشر کتنے گوشۂ دل میں
وہ میرے سامنے کچھ اس ادا سے بے نقاب آیا

وہ آئے سیر دریا کے لئے تو بجھ گئیں موجیں
قدم سے ان کے اپنی آنکھ ملنے ہر حباب آیا

بہت بوسے لیے ہیں میں نے ان کافر حسینوں کے
مزا آئے گا مجھ کو بھی اگر روز حساب آیا

تکلف بر طرف اے شیخ صحبت سے یہ آپس کی
مرے آگے شراب آئی ترے آگے کباب آیا

اسی کوشش میں کٹتی ہجر کی راتیں ہوئیں آخر
نہ ان کے گیسوؤں کا میرے دل میں پیچ و تاب آیا

خیال یار کے صدقے خیال یار ہی ہوگا
تسلی مجھ کو دینے کوئی وقت اضطراب آیا

تری نوک قلم نے دل میں گہرے زخم ڈالے ہیں
ہزاروں دشنہ و نشتر لیے خط کا جواب آیا

وہ تصویر آج تک محفوظ ہے چشم تصور میں
ترے بچپن سے جب اٹکھیلیاں کرتا شباب آیا

نہیں موجیں ہیں یہ سیل حوادث کے طمانچے ہیں
اسے کھانا پڑی منہ کی ابھر کر جب حباب آیا

برابر میری تربت کے کیا ہے دفن دشمن کو
یہ اچھا میرے حصے میں جہنم کا عذاب آیا

کہیں دعوت میں کل ہم اور واعظ پاس بیٹھے تھے
کوئی لے کر شراب آیا کوئی لے کر کباب آیا

لحد پر میری بھیجا ہے عدو کو فاتحہ پڑھنے
جو پہنچانے ثواب آیا وہی بن کر عذاب آیا

جو آئے بھی تو گھوڑے پر ہوا کے وہ سوار آئے
عدو بھی ساتھ سائے کی طرح تھامے رکاب آیا

ہوا بنت عنب سے عقد اس پیرانہ سالی میں
مبارک ہو مجھے ساقی بڑھاپے میں شباب آیا

نرالے ہیں یہی دنیا میں توبہ توڑنے والے
ادھر ساقی ریاضؔ آئے ادھر جام شراب آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse