میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے
by ثاقب لکھنوی

میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے
وگر نہ موت تو دنیا میں ہے سبھی کے لئے

شب فراق کی روزانہ آفتیں توبہ
یہ امتحان تو ہوتا کبھی کبھی کے لئے

بہت سی عمر مٹا کر جسے بنایا تھا
مکاں وہ جل گیا تھوڑی سی روشنی کے لئے

وسیع بزم جہاں ہے تو ہو مجھے کیا کام
جگہ ملی نہ مری حسرت دلی کے لئے

یہ اور دامن قاتل ہے چھوٹ جائے گا
لہو میں جوش تو برسوں سے تھا اسی کے لئے

نہ آنکھ بند کروں میں تو کیا کروں یا رب
وہ آ رہے ہیں تماشائے جانکنی کے لئے

بلا کے مجھ کو نکالا ہے اپنی محفل سے
وہ نیکیاں نہیں اچھی ہیں جو ہو بدی کے لئے

قفس میں آج تماشائے‌‌ غم ہے قابل دید
تڑپ رہا ہوں میں صیاد کی خوشی کے لئے

تمام ہو گئے ہم اک نگاہ قاتل سے
رگیں گلے کی تڑپتی رہیں چھری کے لئے

فروغ حسن بڑھا دل کی بے نوائی سے
فقیر ہو گیا شان تونگری کے لئے

قفس میں چپ نہ ہوں تو کیا کروں کہ یہ قیدی
نہ دوستی کے لئے ہے نہ دشمنی کے لئے

تمام بزم میں چھایا ہوا ہے سناٹا
چھڑا تھا قصۂ دل ان کی دل لگی کے لئے

شکایت‌ چمن دہر کیا کروں ثاقبؔ
ہوا خلاف ہے لیکن کسی کسی کے لئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse