میں دریائے قناعت آشنا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں دریائے قناعت آشنا ہوں
by میر کلو عرش

میں دریائے قناعت آشنا ہوں
میں موج نشان بوریا ہوں

میں عاشق چشم سرمہ سا ہوں
گر خاک بھی ہوں تو توتیا ہوں

طفلی ہی سے وحشت آشنا ہوں
میں اس دامن دشت میں پلا ہوں

دیکھے جو مجھے جہاں کو دیکھے
میں آئنۂ جہاں نما ہوں

چل سکتے نہیں جو باغ تک بھی
طاؤس صفت عدوئے پا ہوں

دیوانہ جو ہوں تو ہوں میں خاموش
زنجیر جو ہوں تو بے صدا ہوں

تا گور بھی صفت سے نہ پہنچوں
بالفرض اگر ہزار پا ہوں

صحبت ہو برآر کس طرح یار
تو شاہ ہے اور میں گدا ہوں

ہر شعر میں زلف کی ہے تعریف
اس بحر میں موج آشنا ہوں

سنتا نہیں ایک بت مرا حال
فریادی تجھ سے اے خدا ہوں

کہتی ہے زبان حال سے موت
میں درد فراق کی دوا ہوں

کہتی ہے یہ روح تن سے ہر دم
تو خاک جو ہو تو میں دوا ہوں

یہ توسن عمر گرم رفتار
کہتا ہے میں اب چراغ پا ہوں

اے عرشؔ زیارت اب کروں گا
میں رہرو دشت کربلا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse