میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
by قائم چاندپوری

میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا
پر آشنا کوئی دیکھا نہ مہرباں دیکھا

ہمیشہ منع تو کرتا تھا باغ سے ہم کو
کچھ حال اب گل و گلشن کا باغباں دیکھا

طلب کمال کی کوئی نہ کیجیو زنہار
کہ میں یہ کر کے فضولی بہت زیاں دیکھا

نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے
کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے گلستاں دیکھا

سنے کو دیکھے پہ ہم کس طرح سے دیں ترجیح
خدا تو ہم نے سنا ہے تمہیں بتاں دیکھا

برنگ غنچہ بہار اس چمن کی سنتے تھے
پہ جوں ہی آنکھ کھلی موسم خزاں دیکھا

نہ کہتے تھے تجھے قائمؔ کہ دل کسی کو نہ دے
مزا کچھ اس کا بھلا تو نے اے میاں دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse