میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
by مرزا جواں بخت جہاں دار

میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
لیکن افسوس کبھی تجھ کو نہ پایا تنہا

شرک سے خالی کسی کا نہ نظر آیا دل
وہ بڑے ظرف ہیں جن میں تو سمایا تنہا

کس کو دعویٰ نہیں الفت کا تری عالم میں
عاشقوں میں ترے میں ہی نہ کہایا تنہا

بند کاکل میں ترے جی بھی ہمارا ہے اسیر
دام میں زلف کے دل ہی نہ پھنسایا تنہا

کل جہاں دارؔ ہم اور یار تھے ٹک مل بیٹھے
بخت ناساز نے پھر آج بٹھایا تنہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse