میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
Appearance
میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
ذہن میں آشنا تراشا ہے
ہاتھ میں رکھیو تو سنبھالے ہوئے
دل تو میرا یہ سیشا باشا ہے
تو جو تولے ہے میرے من کی چاہ
کچھ ترے ہاں بھی تولہ ماشہ ہے
کیا کہوں تیری کاوش مژہ نے
کس طرح سے جگر خراشا ہے
خیر گزرے اثرؔ تو ہے بے باک
اور وہ شوخ بے تحاشا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |