میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے
by مومن خان مومن

میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے
پر یہ ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو یار آ جائے

باندھو اب چارہ گرو چلے کہ وہ بھی شاید
وصل دشمن کے لیے سوئے مزار آ جائے

کر ذرا اور بھی اے جوش جنوں جنوں خوار و ذلیل
مجھ سے ایسا ہو کہ ناصح کو بھی عار آ جائے

نام بدبختی عشاق خزاں ہے بلبل
تو اگر نکلے چمن سے تو بہار آ جائے

جیتے جی غیر کو ہو آتش دوزخ کا عذاب
گر مری نعش پہ وہ شعلہ عذار آ جائے

کلفت ہجر کو کیا روؤں ترے سامنے میں
دل جو خالی ہو تو آنکھوں میں غبار آ جائے

محو دل دار ہوں کس طرح نہ ہوں دشمن جاں
مجھ پہ جب ناصح بیدرد کو پیار آ جائے

ٹھہر جا جوش تپش ہے تو تڑپنا لیکن
چارہ سازوں میں ذرا دم دل زار آ جائے

حسن انجام کا مومنؔ مرے بارے ہے خیال
یعنی کہتا ہے وہ کافر کہ تو مارا جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse