میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا
by شیخ ظہور الدین حاتم

میں اپنے دست پر شب خواب میں دیکھا کہ اخگر تھا
سحر کو کھل گئی جب آنکھ میرا ہاتھ دل پر تھا

نہ تھی تا صبح کچھ حاجت چراغ و شمع و مشعل کی
ہماری بزم میں شب جلوہ گر وہ ماہ پیکر تھا

تری اک جنبش ابرو سے عالم ہو گیا ضائع
نظر کر جس طرف دیکھا تو جو دھڑ تھا سو بے سر تھا

تو اس رفتار و قد سے جس طرف گزرا مرے صاحب
ترے فیض قدم سے ہر قدم سرو و صنوبر تھا

نہ تھی پرواز کی طاقت سر دیوار گلشن تک
کہ جو طائر تھا سو صیاد کے ہاتھوں سے بے پر تھا

چلا جاتا تھا حاتمؔ آج کچھ واہی تباہی سا
جو دیکھا ہاتھ میں اس کے ترے شکوے کا دفتر تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse