میں اٹھا رکھوں نہ کچھ ان کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں اٹھا رکھوں نہ کچھ ان کے لیے
by ریاض خیرآبادی

میں اٹھا رکھوں نہ کچھ ان کے لیے
یہ حسیں مل جائیں دو دن کے لئے

وعدۂ فردا کے سچے مل گئے
اب اٹھا رکھوں میں کس دن کے لئے

کل کے وعدے پر نہ دے وہ مے فروش
جس نے توڑے ہم سے گن گن کے لئے

قورمہ مرغ سحر کا وصل میں
بھیج دیتا ہوں موذن کے لئے

یہ نہ کہنے کو ہو بے گنتی دیئے
میں نے بوسے ان کے گن گن کے لیے

منہ جھلسنے کو خزاں کا عندلیب
آشیاں میں بیٹھے ہیں تنکے لئے

مے کشو واعظ مرے سر ہو گیا
کوئی تدبیر اس پڑھے جن کے لیے

یہ ریاضؔ ان کے بہت تھے منہ لگے
اٹھ رہا کیا آج کچھ دن کے لیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse