میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
by رنجور عظیم آبادی

میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
کب اس کی توقع مجھے بے بال و پری سے

جاگیں گے نصیب اپنے نہ آہ سحری سے
آگاہ ہیں اس آہ کی ہم بے اثری سے

ہے وصل کی خواہش تجھے اس رشک پری سے
حیراں ہوں میں اے دل تری بیہودہ سری سے

ایمان میں زاہد کے بھی آ جائے تزلزل
دیکھے جو مرا بت اسے کافر نظری سے

ان آنکھوں کے رستے سے مرے دل میں چلے آئے
اس طرح غرض پہنچے وہ خشکی میں تری سے

قاصد سے نہ برداشت ہوئے ان کے مظالم
باز آیا وہ آخر مری پیغامبری سے

آنچل کی ہوا دے کوئی اس غنچۂ دل کو
وا ہو نہیں سکتا یہ نسیم سحری سے

یہ شیشۂ دل دیں تو ہم اے طفل پری رو
پر اس میں نہ بال آئے تری بے ہنری سے

ہوش اڑ گئے جاتا رہا قابو سے دل اپنا
آنکھیں جو مری چار ہوئیں ایک پری سے

کب ہاتھ اٹھا کر میں دعا وصل کی مانگوں
فرصت ہے جنوں میں کب انہیں جامہ زری سے

بازو بھی ہلائے بہت اور پاؤں بھی پٹکے
پر اڑ نہ سکی چال تری کبک دری سے

رنجورؔ نہ ہوگا مرض عشق سے جاں بر
اے چارہ گر اب ہاتھ اٹھا چارہ گری سے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.