میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں
by امداد علی بحر

میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں
مرض عشق کا ہے دوا چاہتا ہوں

بیان ملاحت کیا چاہتا ہوں
سخن میں نمک کا مزا چاہتا ہوں

نہ دیکھوں میں اس گل کے پہلو میں کانٹا
اڑے غیر ایسی ہوا چاہتا ہوں

مجھے تسمہ بندی ہو اے زلف پیچاں
فقیر آج کل میں ہوا چاہتا ہوں

لگی بے طرح ہے خدا ہی بچائے
سلگتا ہے دل میں جلا چاہتا ہوں

بہت کروٹیں لیں نہیں نیند آتی
بغل میں کوئی دل ربا چاہتا ہوں

محبت میں یہ عقل زائل ہوئی ہے
کہ اہل دغا سے وفا چاہتا ہوں

کھلے حال بیمار چشم سخن گو
اشاروں میں باتیں کیا چاہتا ہوں

برا مان جاؤ گے منہ پھیر لو گے
نہ پوچھو قسم دے کے کیا چاہتا ہوں

نگاہیں الجھتی ہیں زلفوں میں بے ڈھب
ان آنکھوں کے ہاتھوں پھنسا چاہتا ہوں

مہ نو کے مصرع میں مصرع لگاؤں
میں اتنی طبیعت رسا چاہتا ہوں

ہوئے چارہ جو کب مریض محبت
خدا موت دے جو شفا چاہتا ہوں

وہی دشمن جاں ہے اے بحرؔ میرا
جسے جان سے میں سوا چاہتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse