Jump to content

مینا بازار/چھٹا باب: بادشاہ مینا بازار میں

From Wikisource


چھٹا باب

بادشاہ مینا بازار میں


دوسرے دن نواب ممتاز الزمانی تاج محل صاحبہ پہر دن چڑھے ہی سوار ہو کے مینا بازار میں تشریف لے گئیں۔ پہنچتے ہی شاہزادیوں کو بُلوایا۔ شاہی خاندان کی اور جتنی خاتونیں تھیں، سب کی دعوت کی۔ مگر اُن کے تشریف لے جانے سے پہلے ہی شہر کی ہزارہا بیویاں پہنچ چکی تھیں اور دوپہر سے پہلے ہی بازار عورتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خاتونان خاندان شہر یاری کے علاوہ تمام دکاندار عورتوں کو بھی تاج محل صاحبہ کے باورچی خانے سے کھانا گیا اور بہت سی سیر کو آنے والیاں بھی جن کی محل میں رسائی تھی دسترخوان پر مدعو کی گئیں۔

تاج محل صاحبہ برابر اندازہ کرتی تھیں کہ آج سیر کرنے والیوں کی تعداد کتنی ہے۔ دروازے پر لکھنے والی کئی عورتیں بٹھا دی تھیں جو ہر آنے والی کا نام لکھتی جاتیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ملکۂ جہاں کو خبر ہوتی رہتی تھی کہ اس وقت تک اتنی عورتیں آئیں ہیں۔ تیسرا پہر تھا کہ معلوم ہوا آنے والیوں کی تعداد دس ہزار سے بڑھ گئی اور انھیں نہایت حیرت تھی کیونکہ اُن کے خیال میں تھا کہ حضور جہاں پناہ اور اُن کے ساتھ بہت سے غیر مردوں کے آنے کے اندیشے سے کم بیویاں آئیں گی۔

یہ سُن کر وہ اپنی کوشک سے اُٹھ کے بازار میں گئیں۔ اگرچہ آگے آگے خواصیں اور قلماقنیں ہٹو بچو کہہ کے راستہ نکالتی جاتی تھیں، مگر عورتوں کی اس قدر بھیڑ تھی کہ گذرنا دشوار تھا۔ اس سیر میں وہ ہر ہر دکان پر جا کے ٹھہرتیں اور دیکھتیں کہ دکاندارنیوں کا تماشائیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہے اور کوئی کسی کے ساتھ بداخلاقی تو نہیں کرتا۔ بازار میں پھر کے مرغزار میں رونق افروز ہوئیں اور اعلان کرا دیا کہ تمام عورتیں جو بازار میں موجود ہیں، وہ تمام دکاندارنیں بھی اور سیر کو آنے والیاں بھی تفرج گاہ میں حاضر ہوں۔ حضرت ملکۂ جہاں ان سے کچھ فرمانا چاہتی ہیں۔

تھوڑی ہی دیر میں سارا میدان عورتوں سے بھر گیا اور چونکہ چبوترے پر اتنی جگہ نہ تھی کہ سب اُس پر آ سکیں لہذا ان کے بیٹھنے کے لیے نیچے زمین پر فرش بچھوا دیا گیا۔ سب عورتوں کے جمع ہو جانے کے بعد نواب ممتاز محل نے ان تمام بیویوں کی نسبت اپنی خوشنودی ظاہر کی جو آج کے دن مینا بازار کی سیر کو آئی تھیں۔ پھر فرمایا: “کل بازار کے افتتاح کے دن جتنی بیویاں آئیں ان سے میر ا خیال تھا کہ بعد والے دنوں میں سیر کرنے والیوں کی تعداد کم رہے گی، مگر آج آپ کی کثرت دیکھ کر مجھے بڑا اطمینان ہوا اور یقین ہوگیا کہ خاتونان ملک کی فلاح بہبود اور اخلاقی فائدہ رسانی کے لیے جو یہ بازار کھولا گیا تو اسے آپ بھی پسند کرتی ہیں اور اس کی ترقی میں سچے دلی ذوق و شوق سے حصہ لیتی ہیں۔ حضرت شاہنشاہ جہاں پناہ کو آپ ہی کے فائدے کے خیال سے اس مینا بازار میں بڑی دلچسپی ہے۔ وہ روز روز کے حالات دریافت کرتے اور آپ کو اس بازار کی سیر سے خوش ہوتے سُن کر بہت مسرور ہوتے ہیں۔

میں نے کل امید دلائی تھی کہ حضور شہریار جہاں غالباً آج یا کل اس بازار کی سیر فرمائیں گے مگر بعض عالموں کی مخالفت کے باعث انھوں نے خیال فرمایا کہ شاید مسلمان شریف و معزز خاتونیں اپنی پردہ دری کے اندیشے سے یہاں آنے میں تامل کریں اور گو کہ حاکمان شرع کے منشا کے مطابق چہروں پر ہر قسم کی نقابیں ڈالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مگر پھر بھی مرضی مبارک یہ ہوئی کہ آپ کی آزادی میں فرق نہ ڈالیں اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو کسی خاتون کے بھی خلاف مزاج ہو۔ میرا بھی خیال تھا کہ حضرت قدر قدرت کی آمد کے خیال سے شاید آج یہاں کم بیویاں آئیں، مگر اُس اندیشے کے خلاف آج بہت زیادہ سیر کرنے والیاں آئیں، جس سے مجھے اطمینان ہوگیا کہ ہماری بیویوں کو اپنے محافظ ناموس شہنشاہ پر پورا بھروسا ہے اور جب میں یہ حال حضرت سے بیان کروں گی تو وہ بہت خوش ہوں گے، اور اب میں عام طور پر اعلان کرتی ہوں کہ پرسوں سہ پہر کو حضرت ظل سبحانی اس مینا بازار کو اپنے ورود مسعود سے سرفراز فرمائیں گے اور بہ نفس نفیس ہر ہر دکان پر تشریف لے جا کے خریداری فرمائیں گے۔ مجھے آپ کی مستعدی اور عام دلچسپی سے امید ہے کہ اُس روز سب بیویاں ضرور آئیں گی تاکہ حضرت ہمارے اس بازار کو نہایت رونق پر دیکھ کے محظوظ و مسرور ہوں”۔

حضرت ملکۂ جہاں نے جیسے ہی اپنی تقریر ختم کی، ایک معزز وزیر کی فارسی نژاد تعلیم یافتہ خاتون نے کھڑے ہو کر سب عورتوں کی طرف سے شہنشاہ بیگم کی شفقت و مرحمت کا شکریہ ادا کیا اور کہا: “ہم سب کو شریعت کی پابندی اور اپنے ناموس کی حفاظت کا پورا خیال ہے مگر اُس کے سچے محافظ حضور شہنشاہ ہی ہیں۔ پھر ایسے نیک نفس و فرشتہ خصال حامی و محافظ پر ہم میں سے کسی کو بھلا کیسے بد گمانی ہو سکتی ہے؟ ہم سب حضرت جہاں پناہ کی لونڈیاں ہیں اور لونڈی کو آقا سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے اپنی شفقتوں اور عنایتوں سے اپنےآپ کو ہمارا مہربان باپ ثابت کر دیا۔ اس صورت میں بھی ہم کو ان کی بیٹیاں ہونے کا شرف حاصل ہوگیا اور ایسا ہے تو باپ بیٹی کا پردہ ہی کیا؟ بہرحال جہاں پناہ ہر طرح ہمارے بہترین محرم ہیں اور خدا نہ کرے کہ کسی کو بھی اُن کی نسبت کسی قسم کی بدنگاہی کا وہم ہو۔ علاوہ بریں جب ہمیں چہروں پر نقاب ڈال لینے کی اجازت عطا ہو گئی تو پھر کس بات کا اندیشہ رہا؟ حضرت ملکۂ عالم کی شفقتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہم سب روز اس بازار کی سیر کو آیا کریں گے اور پرسوں چونکہ حضرت شہنشاہ بیگم دام اقبالہا کے ساتھ حضور جہاں پناہ کی رونق افروزی کا مژدہ سُن چکے ہیں، لہذا ہم سب اپنی خوش نصیبی تصور کر کے زیادہ شوق سے آئیں گے۔ سارا مینا بازار خاتونوں سے بھرا پُرا ہوگیا اور ہماری پوری کوشش یہی رہے گی کہ جہاں پناہ ہم سے خوش تشریف لے جائیں”۔

اس کے بعد ایک شریف و معزز ہندو رانی نے بھی اُٹھ کر ملکۂ عالم کو اپنی قوم والیوں کی طرف سے اطمینان دلایا اور کہا: “ہم کو تو حضرت جہاں پناہ سے رشتہ داری کا حق حاصل ہے۔ وہ ہر طرح ہمارے محرم ہیں اور ایسے عالی مرتبہ محرم جن کی وفاداری میں جل کے مرجانا اور جانیں دینا قدیم الایام سے ہمارا شعار چلا آتا ہے۔ ہم میں اتنا سخت پردہ نہیں جتنا مسلمانوں میں ہے مگر اپنے رشتہ دار خاندانوں کے ساتھ وفاداری کرنے میں ہم ان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ جہاں پناہ یا ہمارے شفیق باپ ہیں یا محبت والے بھائی یا سعادت مند فرزند، اور یہ تینوں عزیز وہ ہیں جن کی وفاداری میں ہم ہمیشہ اپنی جانوں کو تج دیا کرتے رہے ہیں”۔

ان جوابی تقریروں کو سُن کر نواب ممتاز الزمانی تاج محل صاحبہ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا: “میں گھر جاتے ہے سب سے پہلے آپ سب کے اس خلوص، عقیدت و جوشِ اطاعت کو حضور شہنشاہ پر ظاہر کر دوں گی”۔

اس کے بعد جتنی عورتیں جمع تھیں، دکاندارنیں ہوں یا سیر کو آنے والیاں سب کی ضیافت کا سامان کیا گیا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد بازار میں روشنی ہونا شروع ہوئی تھی کہ ملکۂ جہاں مغرب کی نماز پڑھ کے سوار ہو گئیں اور شاہزادیاں جو ساتھ آئی تھیں، وہ بھی اپنے مکانوں کو واپس گئیں۔

آج بازار میں خاص چہل پہل تھی اور شام کو وہ چہل پہل بہت زیادہ ہو گئی جب مشہور ہوا کہ کل حضرت پناہ جہاں و شہنشاہ زماں بازار میں رونق افروز ہوں گے۔ دُکاندارنیں اس لیے خوش تھیں کہ ان کا سب مال فروخت ہو جائے گا اور اس شوق میں اسی وقت سے انھوں نے اپنی دکانوں کے سجنے کا اور خود اپنے بناؤ سنگھار کا سامان شروع کر دیا۔ سیر کو آنے والیاں اس شوق میں تھیں کہ کل اسی زنانے بازار کی سیر کے بہانے حضرت جہاں پناہ کی زیارت نصیب ہو جائے گی اور اُن کو اس میں اپنی خوش نصیبی نظر آتی تھی کہ اُن کے عزیزوں اور گھر والوں نے مینا بازار میں آنے کی اجازت دے دی۔

اس مجمع میں چند ایسی عورتیں ضرور تھیں جن کو نامحرم لوگوں کے سامنے آنا ناگوار تھا۔ دل میں کہتی تھیں کہ ہم سے غیروں کے سامنے کیسے آیا جائے گا لیکن اُن کے لیے بھی یہ بہانہ کافی تھا کہ چہرے پر نقاب ڈال لے سکتے ہیں اور چونکہ مردوں نے آنے کی اجازت دے دی اس لیے کوئی الزام دینے والا نہیں ہے۔

صبح ہی سے دکانوں، سڑکوں اور تفرج گاہ کی صفائی اعلیٰ پیمانے پر ہونے لگی۔ جھاڑ فانوس صاف کیے جانے لگے، گذر گاہوں اور سڑکوں پر مخمل و اطلس کا فرش بچھنے لگا اور دوپہر سے پہلے نواب ممتاز الزمانی بیگم معائنے کے لیے تشریف لائیں تو بازار کی کچھ شان ہی اور تھی، اور اسی کے ساتھ دُکاندارنوں کا نکھار اور سنگھار بھی بلا کا تھا۔ ہر عورت سر سے پاؤں تک مرصع زیور سے آراستہ ہو کر اور بھاری جوڑا پہن کے دلہن بنی ہوئی تھی۔

سارے بازار میں پھر کے اور ہر چیز کو معائنہ فرما کے وہ واپس چلی گئیں، اس لیے کہ اب حضرت جہاں پناہ کی تشریف آوری کا وقت قریب آ گیا تھا اور چونکہ اُن کے ہمراہ اُمرائے دربار بھی آنے والے تھے لہذا اُن سے کے سامنے نواب تاج محل کا بازار میں موجود رہنا غیر ممکن تھا۔ چنانچہ وہ اپنی شاہزادیوں اور خاندان شاہی کی تمام عورتوں کو ہمراہ لے کر مینا بازار سے سوار ہو گئیں۔

محل میں داخل ہوتے ہی اپنے صاحب تاج و سریر شوہر کے پاس گئیں اور کہا: “لے اب آپ تشریف لے جائیں، میں مینا بازار کو دیکھ آئی۔ تمام عورتوں نے ایسا سنگار کیا ہے کہ ہر ایک پرستان کی پری معلوم ہوتی ہے۔ جو رونق و شان بازار میں آج ہے نہ کل تھی نہ پرسوں۔ یہ میں نے بتا ہی دیا تھا کہ کل پرسوں کی بہ نسبت تگنی چوگنی عورتیں آئی تھیں، آج کل سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو اندیشہ تھا کہ بے پردگی کے خیال سے بہت کم عورتیں آئیں گی وہ بالکل غلط تھا”۔

یہ سُن کر حضرت جہاں پناہ بہت خوش ہوئے اور دریافت کرایا کہ تمام اُمرائے دولت و اعزائے شاہی جمع ہو گئے؟ فوراً اُردابیگنی نے عرض کیا کہ سب حاضر ہیں، فقط جہاں پناہ کے برآمد ہونے کی دیر ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہی جہاں پناہ ہوا دار پر سوار محل سے باہر نکلے اور امرائے دربار بڑھ بڑھ کے آداب بجا لائے۔ جس طرح مینا بازار کے افتتاح کے دن علیا حضرت ملکۂ زماں نواب ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ کی سواری کے لیے جلوس کا خاص اہتمام ہوا تھا، آج اس سے زیادہ حضرت شہنشاہ جہاں پناہ کی سواری کے لیے کیا گیا تھا۔ شاہی فوج کے بہت سے رسالے سب کے آگے تھے۔ اُن کے بعد بہت سی پلٹنیں تھیں، صدہا جھنڈے اور علم ہوا میں لہرا رہے تھے، بیرقیں اُڑ رہی تھیں، ماہی مراتب، نشانِ آفتاب و ہلال اپنی آب و تاب کا جلوہ دکھا رہے تھے۔ ہاتھیوں اور اُونٹوں پر نقارے تھے جن پر چوٹیں پڑتی تھیں، قرنا پھنک رہا تھا اور نقیب قدم قدم پر نعرے لگاتے جاتے تھے۔ صدہا اُمرائے دولت اپنے درجے اور رتبے کی سواریوں پر شان و شکوہ سے بیٹھے تھے۔ اس جلوس کے درمیان خسرو جہاں صاحب قران ثانی ایک سب سے بلند اور شاندار ہاتھی پر گنگا جمنی عماری میں رونق افروز تھے اور مصاحبین و اُمرائے دربار ہمراہ رکاب تھے۔

مینا بازار میں ہرکارے اور سوار دوڑ دوڑ کے خبر پہنچا رہے تھے کہ اب سواری بادبہاری فلاں مقام پر پہنچی اور اب فلاں بازار میں ہے۔ یہاں تک کہ نقارۂ شاہی کی آواز آئی اور ساری عورتوں کے جسم میں ایک جُھرجُھری سی پیدا ہو گئی۔ اکثر دہشت و رعب شاہی سے ادھر اُدھر بھاگنے لگیں اور جو دل کی مضبوط تھیں نہایت ادب سے کسی مقام پر خاموش کھڑی ہو گئیں۔ اتنے میں محل کی نقیب عورت نے “جہاں پناہ سلامت” کا نعرہ بلند کیا اور حضرت جم جاہ عماری سے اُتر کے ہوادار پر سوار ہوئے۔ تقریباً چار پانچ سو اُمرا نے ہوا دار کو گھیر لیا اور سواری مبارک اس معزز و عالی مرتبہ جلوس کے ساتھ مینا بازار میں داخل ہوئی۔ ہر طرف خوبصورت اور بانکی ترچھی پری جمالوں کا جُھرمٹ تھا اور وہ بار بار اپنی سُریلی آوازوں میں “جہاں پناہ سلامت” کے نعرے لگا رہی تھیں۔

اس شان سے سواری شاہی کوشک کے دروازے پر پہنچی۔ ہمراہی اُمرا و وزرا کوشک کے باہر ٹھہر گئے اور حضرت جہاں پناہ نے زینے پر قدم رکھا۔ کوشک میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک معزز وزیر کی بیوی نے با آواز بلند کہا “اے آمدنت باعث آبادی ما” اور جب شاہ جمجاہ مسند پر رونق افروز ہوئے تو ایک عجمی امیر کی تعلیم یافتہ خاتون نے ادب سے سامنے کھڑے ہو کر ایک مدحیہ قصیدہ عجمی موسیقی کی لے اور دھن میں سنایا جو اسی وقت کے لیے نیا موزوں کیا گیا تھا۔ قصیدے کے ختم ہوتے ہی چند شوخ ادا نازنینوں نے جو ڈومنیوں میں سے منتخب کر لی گئی تھیں، اپنی زاہد فریب آواز اور گلو سوز سُروں میں نغمۂ مبارکباد گانا شروع کیا۔

بادشاہ نے اس سارے پرستان میں سے ہر ہر گل اندام نازنین کے چہرے پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور اظہار خوشنودی فرمایا۔ پھر سعد اللہ خان کی محترم بیوی کی طرف متوجہ ہو کر جو سب عورتوں میں زیادہ پیش پیش تھیں اپنی مسرت ظاہر فرما کے ارشاد کیا: “ممتاز الزمانی بیگم کی تو خواہش ہے کہ تمھارا مینا بازار بازار ہی رہے جس میں بڑے چھوٹے اعلی و ادنیٰ کا امتیاز نہ نظر آئے مگر تم سب نے اس کو آخر دربار بنا دیا”۔

بیگم سعد اللہ خان: ہم سب اپنے جہاں پناہ محافظ ننگ و ناموس کی لونڈیاں ہیں اور سب کی تمنا ہے کہ اس رونق افروزی کے وقت اپنا حق عقیدت ادا کریں، مگر افسوس ہماری بدقسمتی سے حضور عالیہ منظور نہیں فرماتیں۔ ورنہ ہم میں سے ہر ایک کی دلی تمنا تو یہ ہے کہ بارگاہ خسروی میں نذریں پیش کر کے حق عبودیت ادا کر دیں۔

جہاں پناہ: میں نذروں سے زیادہ اس سے خوش ہوا کہ ممتاز محل کی خوشی پوری کرنے کے لیے تم ایسے ذوق و شوق سے یہاں جمع ہو گئیں اور اس کو گوارا کیا کہ میں مع اپنے امرائے دربار اور شاہزادوں کے اندر چلا آؤں، اور تعجب ہے کہ اگرچہ نقاب کی عام اجازت ہے مگر میں اس وقت کسی خاتون کے چہرے پر نقاب نہیں دیکھتا”۔

اس کے جواب میں ایک اور امیر زادی نے زمین بوس ہو کے عرض کیا: “ہم سب حضرت جمجاہ کی لونڈیاں ہیں اور لونڈیوں کا آقا سے پردہ ہی کیا۔ حضرت علیا حضرت ملکہ نے تو کمال شفقت و مرحمت اور رواج قدیم کی حفاظت کے لیے نقابوں کی اجازت دے دی۔ مگر ہم میں سے تمام عورتوں نے باہم عہد کر لیا ہے کہ اگر چہرے کو نقاب میں چھپانا ہوگا تو سامنے نہ آئیں گے اور آئیں گے تو بے نقاب ہو کر آئیں گے”۔

جہاں پناہ: تمھاری اس سعادت و اظہار عبودیت کو سُن کر میں بہت خوش ہوا۔ مگر کیا کچھ ایسی عورتیں بھی یہاں ہیں جو میرے سامنے آنا نا پسند کرتی ہوں اور ادھر اُدھر کونوں میں چھپ رہی ہوں؟

وہی خاتون: مینا بازار میں ایسی کوئی عورت نہیں ہے اور شاید شہر بھر میں نہ ہو۔ مگر ہم عورتوں میں یہ قرار داد طے پا گئی تھی جس کو ہم نے سب آنے والیوں اور سیر کرنے والیوں پر ظاہر کر دیا تھا۔ لیکن ہمیں کوئی ایسی عورت نہیں نظر آتی ہے جو کل یا پرسوں مینا بازار میں آئی ہو اور آج موجود نہ ہو۔

جہاں پناہ: تم سب نے اس بازار کو پسند کیا؟

کئی آوازیں: بہت زیادہ پسند کیا اور حضور عالیہ کی اس مرحمت کو زندگی بھر یاد رکھیں گے۔

جہاں پناہ: اور انھوں نے یہ بازار محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ خاص تمھارے فائدے کے واسطے قائم کیا ہے۔ یہ فائدہ کہ خاتونوں کا مال اچھے داموں بک جائے گا، بالکل سامنے کا اور ظاہری بات ہے۔ اصلی فائدہ یہ ہوگا کہ گھروں کی بیٹھنے والی عورتیں دنیا کو دیکھیں گی، آپس میں میل جول بڑھائیں گی، محبت و اخلاق سے ملنا سیکھیں گی، آداب مجلس سے واقف ہوں گی اور پھر باہم مل کے اپنی صنف کے مقاصد و فوائد پر غور کریں گی۔

ایک خاتون: بے شک ہماری ترقی اور ہمارے مہذب و شائستہ بنانے کے لیے یہ بہترین مدرسہ ہے جس کو ہم علیا حضرت کی ایک پائدار برکت مانتے ہیں۔

جہاں پناہ: اور اسی خیال سے بیگم کا ارادہ ہے کہ ہر سال موسم بہار میں ایک مہینے تک یہ بازار قائم رہا کرے۔ یہی سوچ کر انھوں نے اس بازار کے لیے یہ مستقل عمارت تعمیر کرا دی جو روز بروز بہت زیادہ بارونق ہوتی جائے گی اور اسی بہانے میں ہر سال ایک دن تمھارے دیدار سے مسرت حاصل کیا کروں گا۔

بہت سی آوازیں: اس سے ہمیں فخر و وقار حاصل ہوگا۔

جہاں پناہ: بعض علما اور شاید اَور لوگوں کو بھی میرے اندر چلنے آنے پر اعتراض ہو۔ اگرچہ میں از روئے شریعت اس مسئلہ پر غور کر چکا ہوں اور اطمینان ہوگیا ہے کہ اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم میں اپنی رعایا کے قدیم رواج کا بہت احترام کرتا ہوں اور نہیں پسند کرتا کہ کسی کے دل میں شکایت پیدا ہو۔ لیکن اس سے زیادہ خیال مجھے عورتوں کی ترقی و بہبود کا اور ان کی اصلاح و ترقی کا ہے۔

اب حضرت جہاں پناہ اُٹھ کر کوشک کے نیچے تشریف لائے اور پا پیادہ بازار کا رُخ کیا۔ کہاروں نے ہوا دار کے بڑھانے کا ارادہ کیا تو فرمایا “میں پیدل چلوں گا”۔ پھر مسکرا کے ارشاد ہوا “بیگم نے سارے راستے میں نفیس اور پُر تکلف فرش بچھوا دیا ہے، لہذا اگر میں پیدل پھر کے سیر نہ کروں تو ناشکری ہوگی اور پھر مجھے ہر دکان کو دیکھنا ہے، پیدل ہی چلوں گا”۔ فوراً نقیب عورتیں اور قلماقنیں آگے بڑھیں اور عورتوں کی بھیڑ کو ادھر اُدھر ہٹاتی ہوئی جہاں پناہ کے آگے ہو لیں۔ شاہزادے اور اُمرا و معززین دربار پیچھے تھے۔ عورتوں کے اتنے بڑے مجمع اور اُن کی رعنائی و زیبائی کو دیکھ کے خود حضرت ظل اللہ اور کل رفقائے رکاب دولت دم بخود تھے۔ چونکہ سب سے حلف لے لی گئی تھی کہ کوئی کسی پر بُری نگاہ نہ ڈالے گا، لہذا کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی مہ جبین کو آنکھ بھر کے دیکھے۔ سب کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور احکام قرآنی یَغُضُّوا مِن اَبصَارِہِم وَ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِہِنَّ کی اتنی پابندی ہندوستان میں شاید کبھی نہ ہوئی ہوگی جتنی اُس وقت ہو رہی تھی۔

اب بادشاہ جہاں پناہ نے ایک سرے سے دکانوں کو دیکھنا شروع کیا تو ہر ہر دکان میں تشریف لے جاتے، ہر چیز کو ملاحظہ فرماتے، بیچنے والی سے گفتگو کرتے، معاملۂ بیع میں لطف پیدا کرنے کے لیے دام چکاتے اور دیر تک باتیں کرتے رہتے، اور جو مال پیش کیا جاتا اُس کا زیادہ قیمتی حصہ خرید لیتے۔ اس میں شک نہیں کہ ہر عورت کے مذاق و انداز گفتگومیں فرق تھا، کوئی شوخ ادا چلبلی تھی، اُس کی یہ حالت تھی کہ جس طرح بادشاہ اُس کی باتوں سے لُطف اُٹھاتے وہ حضرت جہاں پناہ کی باتوں سے مزہ لیتی۔ کوئی ایسی طرار و بے باک تھی جو اُلٹے بادشاہ کو چھیڑنا چاہتی اور بادشاہ دل ہی دل میں اُس کی بے باکیوں سے لطف اٹھاتے اور زبان سے کچھ کہتے نہ بنتی۔ کوئی ایسی شرمیلی تھی کہ اُس سے چار آنکھیں نہ کی جاتیں اور زبان سے کوئی لفظ بھی نہ نکل سکتا، مگر اُس کی شرم و ندامت کی ادائیں دل رُبائی میں سب سے بڑھ جاتیں۔ کوئی ایسی معتدل طبیعت کی متین و ضابط نازنین بھی جس میں نہ شرم تھی نہ شوخی، وہ ہر بات کا جواب نہایت ہی ضبط و سکون سے دیتی؛ جہاں پناہ چھیڑتے بھی تو اُس کی متانت میں فرق نہ آتا۔ پھر اُن میں بھی مختلف قسموں کی شانیں تھیں۔ کسی کی کوئی ادا دلفریب تھی اور کسی کی کوئی گفتگو، کسی کی بے باکی اور طرح کی تھی اور کسی کی شوخی اور وضع کی۔ کسی کے شرمانے میں ایک انداز تھا اور دوسری میں دوسرا۔

غرض بادشاہ ہر دکان سے پُر شوق دل پر ایک نیا نقش لے کر آگے بڑھتے اور اس بازار حُسن کی سیر کرتے چلے جاتے۔ اس سیر اور خریداری میں اتنی دیر لگی کہ بازار کی چار سڑکوں میں سے ایک ہی کا معائنہ کیا تھا کہ شام ہو گئی اور روشنی ہونے لگی۔ چنانچہ تفرج گاہ کے چبوترے پر جہاں پناہ نے جا کے نماز مغرب ادا فرمائی۔ بعد مغرب دوسری سڑک پر پہنچے اور پھر سیر و خریداری میں مصروف ہو گئے۔

اب بازار میں خوب روشنی ہو گئی تھی جس نے لطف بڑھا دیا تھا اور جس طرح سڑکوں، دکانوں اور ان کی آرائش کی آب و تاب رات کی روشنی میں بڑھ گئی تھی، اُسی طرح دکاندارنوں اور اُن کے مال کی رونق و خوبی بھی ترقی پر نظر آتی تھی۔ پری جمالیں جھاڑوں، کنولوں اور مشعلوں کی روشنی میں اگر جنت کی حوریں نظر آتی تھیں تو اُن کے فروخت کے جواہرات دن سے بدرجہا زیادہ ضَو دیتے تھے۔

حضرت جہاں پناہ کے معائنہ کی اب بھی وہی شان تھی؛ ہر دکان پر گھڑیوں ٹھہرتے، ماہ پیکر دکاندارنیوں کی دلرُبا صورتیں دیکھتے، ان کی دکانوں کی آرائش اور اُن کی دکانوں کے سجنے اور مال کو قرینے سے رکھنے پر غور فرماتے، اُن سے باتیں کرتے، ان کے انداز کلام اور اُن کی اداؤں سے لطف اُٹھاتے اور جی بھر کے دیکھ سُن لیتے تو آگے بڑھتے۔

اسی سیر میں پہر رات گذر گئی اور ابھی آدھا بازار دیکھنا باقی تھا۔ آج چونکہ بادشاہ جم جاہ کو معمول سے بہت زیادہ چلنا پڑا، لہذا بہت تھک گئے اور فرمایا: “جی تو یہ چاہتا ہے کہ چاہے ساری رات اسی سیر میں صرف ہو جائے، مگر سارے بازار کی آج ہی سیر کر لوں۔ مگر اب میں بھی تھک گیا ہوں اور بازار والیاں بھی اکتا گئی ہوں گی۔ لہذا باقی ماندہ دو سڑکوں کی کل سیر کروں گا اور جس وقت آج آیا تھا اسی وقت کل بھی آؤں گا”۔ یہ فرما کے جہاں پناہ شاہی کوشک میں تشریف لائے۔ تھوڑی دیر وہاں آرام فرمایا اور فریضۂ عشا ادا کر کے اسی اگلے کر و فر اور جاہ و جلال سے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔