Jump to content

میلہ ہردوار کا بیان

From Wikisource
میلہ ہردوار کا بیان
by ماسٹر رام چندر
319284میلہ ہردوار کا بیانماسٹر رام چندر

چونکہ یہ ایک بڑا میلہ ہندوستان میں ہوتا ہے اس واسطے اس کا کچھ ذکر کرنا مناسب سمجھا۔ واضح ہو کہ ہردوار ایک چھوٹا سا شہر کنارے پر واقع ہے۔ یہ مقام درمیان لق و دق جنگل اور دریائے گنگ کے واقع ہے اور جنگل مذکور مشرق میں اس کے ہے۔ چونکہ ہندو گنگا کو بہت پاک سمجھتے ہیں، اس واسطے جوق در جوق ہنود ہر ضلع ہندوستان سے وہاں ماہ اپریل میں نہانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات اس میلے میں دس لاکھ آدمیوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن اکثر تین لاکھ آدمیوں سے زیادہ جمع نہیں ہوتے۔ جس میں سے ایک تھوڑا حصہ زائرین کا ہوتا ہے اور سب تماشہ بین اور سوداگر لوگ ہوتے ہیں۔ اس موقع پر صاحبان انگریز بھی قریب تین سو کے جاتے ہیں، جن میں بعض تو صاحبان واسطے انتظام کے تشریف لاتے ہیں اور بعض بحکم سرکار گھوڑے خریدنے آتے ہیں، باقی صرف بطور سیاح جاتے ہیں۔ بہتیرے دولت مند مسلمان بھی واسطے سیر کے جاتے ہیں اور اکثر واسطے خرید و فروخت اشیاء کے، جو کہ دور دور سے آتی ہیں، جاتے ہیں۔

شہر کسکل جو تین میل کے فاصلے پر ہردوار سے ہے، نہایت خوبصورت اور قلیل سیر کے جگہ ہے۔ وہاں مکانات پتھر کے کنارے دریا پر بنے ہوئے ہیں اور امیر لوگ ان کو جا کر بطور کرایہ لیتے ہیں یا بعض شخص خرید لیتے ہیں۔ بہتیرے لوگ ڈیرے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان میں رہتے ہیں اور باقی لوگ چھپروں اور سائے بانوں اور درخت کے سایہ کے نیچے اترتے ہیں۔ صاحبان انگریز کے ڈیرے دو طرفہ سڑک پر مشکل سے کھڑے کئے جاتے ہیں اور بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور مسلمان لوگوں کے بھی ڈیرے بہت آراستگی کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہرطرف گھوڑے اور ہاتھی اور نوکروں وغیرہ کا بھی ان کے ساتھ ہجوم ہوتا ہے جس سے کہ آرائش میلہ کی اور بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔

جبکہ ہردوار کے نزدیک پہنچتے ہیں تو سڑک پر عجب سیر آنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہزارہا موٹے موٹے برہمن اور سادہ لوگ چارپائیوں پر چلے آتے ہیں اور لوگ ڈولیوں اور پالکیوں اور شتروں اور گاڑیوں اور چھکڑوں اور بیلوں پر آتے ہیں۔ قریب ہردوار کے جہاں سے کہ سڑک نیچے کو جھکتی ہے، وہاں سے شہر ہردوار اور میلہ دکھائی دینے لگتا ہے اور عجیب گڈمڈ ہجوم اور طرح طرح کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں کہ آدمی کی نگاہ ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امیر کبیر، ہندو عورتوں وغیرہ کے واسطے الگ گھاٹ نہانے کے مقرر ہو جاتے ہیں اور دریا کے اندر بھی وہ نہایت عمدہ ڈولوں میں بیٹھ کے جاتی ہیں اور باقی عورتیں اس وقت کچھ پردہ نہیں کرتیں جبکہ نہان کا وقت آتا ہے۔ اس وقت گھنٹے بجتے ہیں اور ایک دفعہ ہی لاکھوں آدمی ڈیروں اور جھونپڑیوں میں سے نہانے کے واسطے جاتے ہیں اور اس ہجوم میں ایک دفعہ تین سو آدمی مر گئے تھے۔

اس وقت عجب تماشہ ہوتا ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔ برہمن لوگ بڑی گرم جوشی سے اپنا خراج زائرین سے جمع کرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص بغیر ادا کرنے کے نہا کر نہ چلا جاوے اور ہر طرح کے فقیر اپنی معاش کے حاصل کرنے میں مشغول ہوتے ہیں اور تماشہ بین ادھر ادھر پیدل اور سواریوں پر دیکھتے پھرتے ہیں۔ باوجودیکہ لاکھوں آدمیوں کا وہاں غل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی صدہا گھنٹے اور نفریں بجتی ہیں۔

اس موقعے پر ہر ملک کا شخص مثلاً پہاڑی اور اوزبک اور تاتار اور اہل عرب اور افغان اور سکھ اور کشمیری اور اہل تبت اور چین جمع ہوتے ہیں اور مختلف اشیاء واسطے فروخت کے لاتے ہیں۔ اور گھوڑے اور ہاتھی اور اونٹ نہایت کثرت سے بکنے کو آتے ہیں۔ اس میلہ میں ہر طرح کے دوکاندار اور سوداگر نہایت آراستگی اور شان کے ساتھ دوکانیں لگاتے ہیں۔ انواع انواع کے جواہرات اور دوشالہ اور کھلونا اور انگریزی اسباب بکنے کو آتا ہے۔ صدہا خوانچے والے اور پھیری والے بساطی ہر ایک قماش کی چیزیں لئے غل کرتے پھرتے ہیں اور کسی طرف ہزارہا من اناج کے ڈھیر اور کسی طرف میوے کے تھیلے لگے ہوتے ہیں اور چونکہ اس میلہ پر شیرینی کا بہت خرچ ہوتا ہے تو ہزارہا من مٹھائی ہر طرح کے حلوائیوں کی دوکانوں پر پائی جاتی ہے۔

شام کے وقت امیروں کے گھر پر ناچ ہوتے ہیں اور راستے میں بھانمتی اور مداری اور نٹ اپنا اپنا تماشہ دکھاتے ہیں۔ رات کو روشنی کی نہایت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ گنگا پرلوگ چراغ رکھتے ہیں اور چراغ رکھ رکھ کر دریا میں چھوڑتے ہیں اور تمام سطح پانی کی روشن چراغوں سے سرخ معلوم ہوتی ہے اور جب آدھی رات سے زیادہ گزر جاتی ہے اور غل کم ہوتا ہے اور روشنی میں بھی کمی ہوتی ہے اس وقت چور اور قزاق اور بڑے بڑے اس فن کے جاننے والے نکلتے ہیں اور جو کچھ ان کا قابو ہوتا ہے، لے جاتے ہیں۔ اکثر ہندوستانیوں کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنا روپیہ اشرفی تکیوں میں رکھ کر اپنے سرہانے دھر کر سویا کرتے ہیں تو چور لوگ اس میں عجب چالاکی کرتے ہیں۔ جب جانا کہ سب سوتے ہیں تب ایک تنکا لے کر ناک کے اندر یا کان میں ہلکے سے کرتے ہیں اور جب اس کو گدگدی معلوم ہوتی ہے، وہ کروٹ لیتا ہے اور چور تکیہ نکال کر بھاگ جاتے ہیں۔

قبل اس کے کہ صاحبان انگریز کی عملداری وہاں نہیں تھی، میلہ میں بڑی جنگ وجدل ہوا کرتی تھی اور خوب خونریزی ہوتی تھی۔ اب ضلع کا مجسٹریٹ جاتا ہے اور پولیس قائم ہوتا ہے اور پلٹن انگریزی بھی آتی ہے اور بخوبی انتطام ہوتا ہے اور یہ چوری اور خونریزی نہیں ہوتی اور شراب وہاں بکنے نہیں پاتی جو کہ مخزن خرابیوں کی ہے۔ کوئی آدمی مسلح نہیں میلےمیں داخل ہونے پاتا۔ ہر شخص کے ہتھیار ایک خاص مقام پر حکم سرکار سے چھین کر جمع کرتے ہیں اور اس کو ایک ٹکٹ ملتا ہے اور بر وقت مراجعت میلہ کے، مالک کو اس کا ہتھیار مل جاتا ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ساٹھ لاکھ تلواریں جمع ہوئی تھیں۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.