میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے
by آرزو لکھنوی

میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے
شمع تاباں نہ سہی جلتا ہوا دل تو ہوئے

نہ سہی خاک کے پتلوں میں صفات ملکی
بارے اس بار وفا کے متحمل تو ہوئے

حوصلے دل کے محبت میں جو پستے ہی رہے
کر کے ہمت ترے غمزوں کے مقابل تو ہوئے

پرشس غم زدگاں بہر تفنن ہی سہی
خیر سے آپ بھی اس بزم میں شامل تو ہوئے

بے اثر آہ سے بھی اتنی تسلی ہے ضرور
منہ تکا کرتے تھے جو وہ کسی قابل تو ہوئے

آن رکھ لی تری شمشیر ادا کی یوں بھی
جن کو مرنا نہیں آتا تھا وہ بسمل تو ہوئے

سند صبر سہی پاک دلوں کے ناسور
ایسے مقتول بھی اک طرح کے قاتل تو ہوئے

رشک دشمن کی تلافی کو یہ پہلو نہیں کم
غم جانکاہ محبت کے وہ قاتل تو ہوئے

خود سے دکھ مول لیں یہ کام کچھ آسان نہ تھا
کھا کے اک چوٹ مزے درد کے حاصل تو ہوئے

خود کشی میں تو خلل آرزوؔ آیا لیکن
ہاتھ ان کے مری گردن میں حمائل تو ہوئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse