میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
by میر محمدی بیدار

میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
خون دل جسے میرا بادۂ گلابی ہے

دل کو سخت بیتابی چشم کو بے خوابی ہے
ہجر میں ترے ظالم یہ یہ کچھ خرابی ہے

عیش چاہئے جو کچھ سو تو آج ہے موجود
جام و مے ہے ساقی ہے سیر ماہتابی ہے

صبح ہونے دے ٹک تو رات ہے ابھی باقی
تجھ کو گھر کے جانے کی ایسی کیا شتابی ہے

ہم ہیں اور تم ہو یاں غیر تو نہیں کوئی
آ گلے سے لگ جاؤ وقت بے حجابی ہے

تیرے اے پری پیکر سینے پر نہیں پستاں
طاق حسن پر گویا شیشۂ حبابی ہے

کیوں نہ بزم میں بیدارؔ ہووے قابل تحسیں
ہر یک اس غزل کے بیچ شعر انتخابی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse