میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب
by داغ دہلوی

میرے ہی دم سے مہر و وفا کا نشاں ہے اب
تجھ سا اگر نہیں ہے تو مجھ سا کہاں ہے اب

اس حال کو پہنچ گئیں دل کی خرابیاں
تیرا مکاں ہے اب نہ خدا کا مکاں ہے اب

جاتی ہے آدھی رات مگر اس کا کیا جواب
گھبرا کے وہ یہ کہتے ہیں وقت اذاں ہے اب

سینے سے میرے دست تسلی اٹھائیے
یہ بھی دل نحیف کو بار گراں ہے اب

دیکھو ذرا سی شرم نے سب کچھ مٹا دیا
وہ آنکھ وہ نگاہ وہ چتون کہاں ہے اب

کیا لطف دوستی کہ نہیں لطف دشمنی
دشمن کو بھی جو دیکھیے پورا کہاں ہے اب

تم کو یقیں نہیں تو نہ ہو اس کا کیا علاج
کم بخت داغؔ تم سے بہت بد گماں ہے اب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse