میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو
by مضطر خیرآبادی

میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو
یہ سب کچھ ہو مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا تم ہو

تمہارے نام سے سب لوگ مجھ کو جان جاتے ہیں
میں وہ کھوئی ہوئی اک چیز ہوں جس کا پتا تم ہو

محبت کو ہماری اک زمانہ ہو گیا لیکن
نہ تم سمجھے کہ کیا میں ہوں نہ میں سمجھا کہ کیا تم ہو

ہمارے دل کو بحر غم کی کیا طاقت جو لے بیٹھے
وہ کشتی ڈوب کب سکتی ہے جس کے نا خدا تم ہو

بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

مصیبت کا تعلق ہم سے کچھ بھی ہو تو راحت ہے
مرے دل کو خدا وہ درد دے جس کی دوا تم ہو

کہیں اس پھوٹے منہ سے بے وفا کا لفظ نکلا تھا
بس اب طعنوں پہ طعنے ہیں کہ بے شک با وفا تم ہو

قیامت آئے گی یا آ گئی اس کی شکایت کیا
قیامت کیوں نہ ہو جب فتنۂ روز جزا تم ہو

الجھ پڑنے میں کاکل ہو بگڑنے میں مقدر ہو
پلٹنے میں زمانہ ہو بدلنے میں ہوا تم ہو

وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی
نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse