میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی
by ریاض خیرآبادی

میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی
تجھے اے آہ مری بات بنا بھی آئی

ان سے کچھ یہ شفق شام لگا بھی آئی
کہ شب وعدہ جو آئی تو حنا بھی آئی

اتنے دن آئے ہوئے مجھ کو قفس میں گزرے
جھانکنے کو کبھی گلشن سے ہوا بھی آئی

تو ہمیشہ رہی قاتل کے کمر میں اے تیغ
تیرے صدقے تجھے قاتل کی ادا بھی آئی

درد فرقت کی اذیت کا نہ پوچھو کچھ حال
آج گھبرا کے کئی بار قضا بھی آئی

بھولتا ہی نہیں کہنا یہ کسی کافر کا
تجھے بھولے سے کبھی یاد خدا بھی آئی

اٹھ رہی تھیں اسی دن کے لئے نیچی نظریں
چٹکیاں قبر میں لینے کو حیا بھی آئی

حشر کے دن بھی رہی بات وہی آنکھ وہی
جھوٹے وعدوں سے تجھے شرم ذرا بھی آئی

شمع کے واسطے تھی جنبش دامن کافی
ان کے دامن سے لگی باد صبا بھی آئی

آ گیا شکر زباں پر جو کیا خم خالی
پیٹ اپنا جو بھرا یاد خدا بھی آئی

آئے میخانے میں جب مسجد جامع سے ریاضؔ
ساتھ ہی آپ کے قبلے سے گھٹا بھی آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse