میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے
by داغ دہلوی

میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے
ناصح عاقل پرانا گرگ باراں دیدہ ہے

میں بھی تو دیکھوں نکلتا ہے یہ تنکا کس طرح
چارہ گر کی آنکھ میں میرا تن کاہیدہ ہے

تو نے رکھا ہے رقیب ترش رو کے دل پہ ہاتھ
آج کیوں پھیکا ترا دست حنا مالیدہ ہے

خاک میں اس نے ملایا مجھ کو یا میں نے اسے
آج میں ہوں اور یہ میرا دل تفتیدہ ہے

زہر کھا کر مل گئے ہیں خاک میں عاشق بہت
انگلیاں ہیں دیکھ تو یا سبزۂ روئیدہ ہے

خوب آتا ہے لگا لینا نگاہ یار کو
ایک سے ان بن ہوئی تو دوسرا گرویدہ ہے

بہر نظارہ چلا ہے کوچۂ قاتل میں داغؔ
کس بلی کا ہے کلیجہ کس غضب کا دیدہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse