میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا
by ولی عزلت

میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا
خبر نیں حضرت مجنوں کے کاشانے پہ کیا گزرا

ان آنکھوں کو دیا تھا دل وہ دیوانے پہ کیا گزرا
پڑا تھا بات بد مستوں کے پیمانے پہ کیا گزرا

میں اور زنار ہے تسبیح صد دانے پہ کیا گزرا
مرے کافر ہوئے سیتی خدا جانے پہ کیا گزرا

دیا دل وصل لینے کو بگاڑا غیر نے سودا
بکا اس غم کے ہاتھوں میں کہ بیگانے پہ کیا گزرا

وہ زلفیں بس رقیبوں کے دلوں کی سخت گرہیں تھیں
کہو میرے دل صد چاک کے شانے پہ کیا گزرا

نہ پوچھا بھول کر بھی فصل گل میں شیشہ‌ خو تو نے
کہ اس پتھراؤ میں طفلوں کے دیوانے پہ کیا گزرا

پھرے آتے ہیں مستاں در‌ گہ پیر مغاں سیتی
کیا تھا خانہ ویراں شیخ میخانے پہ کیا گزرا

ڈھکی تھی آتش گل تا سر دیوار باغ اب کے
خبر عزلتؔ کو نیں بلبل کے خس خانہ پہ کیا گزرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse