میری ہولی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری ہولی
by سیماب اکبرآبادی

کاش حاصل ہو حقیقی زندگی کا ایک دن
سر خوشی کا ایک لمحہ یا خوشی کا ایک دن
کر دیا ہے شورش عالم نے دیوانہ مجھے
ہے بساط دہر وحشت ناک ویرانہ مجھے

اک نئی دنیا کی خلقت ہے مری تخئیل میں
جو معاون ہو سکے انسان کی تکمیل میں
اہتمام زندگی جس میں بطور خاص ہو
آسماں جس کا محبت ہو زمیں اخلاص ہو

کرشن کی آج یاد رفتہ محفل زندہ کرو
برج و گوکل کی بجھی شمعوں کو تابندہ کرو
خشکیٔ گنگ و جمن کی آبیاری کے لئے
دعوتیں دو گوپیوں کو رنگ باری کے لئے

از سر نو پھر مرتب ہو جہان رنگ و بو
خار و خس سے پھر ہو پیدا کارخانے رنگ و بو
پریم رس سے لاؤ بھر کر خوش نما پچکاریاں
ہوں نئی دامان ہستی پر لطافت باریاں

روح کی آواز ہم آئیں گے ساز و چنگ ہو
جو پڑے انساں پہ وہ انسانیت کا رنگ ہو
چاہتا ہوں یوں ہو رنگیں پیرہن اور ساریاں
شست و شو سے بھی نہ زائل ہو سکیں گل کاریاں

جسم کی صورت رہے دل بھی مسرت میں شریک
روح آزادی بھی ہو جائے حقیقت میں شریک
چاہتا ہوں گلشن کہنہ پر آ جائے شباب
تنکا تنکا پھول ہو اور پتا پتا آفتاب

تازگی وجہ شگفت خاطر عالم رہے
میری دنیا میں ہمیشہ ایک ہی موسم رہے
شاعر و صناع ہو فکر و خلش سے بے نیاز
خواجہ و مزدور میں باقی نہ ہو کچھ امتیاز

ارتقا کے رنگ سے لبریز جھولی ہو میری
انقلاب ایسا کوئی ہو لے تو ہولی ہو میری

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse